Express News:
2025-11-24@04:32:38 GMT

تجارت بحران بدستور برقرار، صرف ٹیرف پالیسی کافی نہیں

اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT

کراچی:

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 2 اہم پیش رفتوں نے تجارتی پالیسی سازوں کو درپیش مشکلات کو نمایاں کر دیا ہے۔ اول بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ پہلے سے کمزور بیرونی کھاتوں پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے جس کی بنیادی وجہ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات کی شرحِ نمو میں کمی ہے۔

مالی سال 2026 کے ابتدائی 4 ماہ میں برآمدات گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4 فیصد کم رہیں، جبکہ درآمدات میں 16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

چونکہ معیشت کی بحالی کے حالیہ منصوبوں میں برآمدات کے فروغ پر خاص زور دیا جا رہا ہے، اس لیے برآمدات میں یہ کمی متعلقہ حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

تجارتی خسارے کے باعث جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بھی بڑھ کر پہلے چار ماہ میں 733 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 206 ملین ڈالر تھا۔

دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ حقیقی موثر شرح تبادلہ (REER) اکتوبر 2025 میں بڑھ کر 103.

95 ہو گئی، جبکہ ستمبر میں یہ نظرثانی کے بعد 101.70 تھی۔ ادھر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً 280 کے آس پاس مستحکم رہی۔

اس رجحان نے اس بحث کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ آیا پاکستان دوبارہ بیرونی شعبے کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے یا نہیں۔موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ 2022 میں عائد کی گئی درآمدی پابندیوں کا جائزہ لیا جائے، جب پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران کا شکار تھا۔

مالی سال 2022 میں پاکستان نے 80 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں، جبکہ برآمدات محض 31 ارب ڈالر تھیں، جس سے 49 ارب ڈالر کا بھاری تجارتی خسارہ پیدا ہوا۔

اس بحران کی چند بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، درآمدات کی نوعیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 2022 کے بعد کے دور میں ایندھن سے متعلق مصنوعات تجارتی خسارے کا بڑا سبب بنیں۔

پاکستان میں ایندھن کی درآمدات مجموعی درآمدات کا 25 فیصد سے زیادہ ہیں، جبکہ کئی مشرقی ایشیائی ممالک میں یہ شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے۔اس کے برعکس ان ممالک کی درآمدات زیادہ تر ٹیکنالوجی سے وابستہ مصنوعات پر مشتمل ہوتی ہیں جو پیداواری صلاحیت بڑھاتی ہیں اور انسانی وسائل کی ترقی میں مدد دیتی ہیں۔

جبکہ پاکستان کی درآمدی ٹوکری میں ایسے پیداواری اور تکنیکی مال کی کمی نظر آتی ہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جون 2022 میں درآمدات کو کم کرنے کے لیے مختلف پابندیاں عائد کی گئیں۔

اگرچہ سال کے اختتام تک ان میں سے کئی پابندیاں ختم کر دی گئیں لیکن ان کے منفی اثرات صنعت اور تجارت پر دیرپا رہے۔

معاشی مشاورتی گروپ (EAG) کی رپورٹس کے مطابق پاکستان نے درآمدات کم کرنے کے لیے نہ صرف مختلف آلات استعمال کیے بلکہ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ سخت اقدامات کیے، جن کا نتیجہ کمزور معاشی ترقی اور موجودہ اقتصادی مسائل کی صورت میں نکلا۔

کرنسی کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے لیے ڈالر کی خریداری پر پابندیاں قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ چونکہ پاکستان کے پاس ماضی میں بھی زرِمبادلہ کے محدود ذخائر رہے ہیں، اس لیے ایسے اقدامات تجارت کو غیر مستحکم بنا دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے بین الاقوامی تجارتی روابط کو بہتر بنانے کے لیے جامع اقدامات کرے۔ یہ اقدامات صرف قومی ٹیرف پالیسی 2025-2030 تک محدود نہ ہوں بلکہ غیر ٹیرف رکاوٹوں اور کاروباری اصلاحات کو بھی شامل کیا جائے۔

چونکہ پاکستان خطے اور دنیا میں تجارتی کھلے پن کے حوالے سے کم ترین سطح پر ہے، اس لیے نہ صرف پاکستانی صنعتکار عالمی منڈیوں تک رسائی سے محروم ہیں بلکہ صارفین کو بھی معیاری اور متنوع مصنوعات میسر نہیں آ رہیں۔

اس صورتحال کا براہ راست اثر قیمتوں اور معیار پر پڑتا ہے۔ صرف ٹیرف پالیسی کافی نہیں ،ضروری ہے کہ ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں جو بین الاقوامی تجارت کو محدود کرنے کے بجائے اس کے فروغ کا باعث بنیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: درا مدات برا مدات کے لیے کی درا

پڑھیں:

جی 20کے ارب پتیوں کی سالانہ آمدن بھوک کے خاتمے کے لیے کافی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنیوا (انٹرنیشنل ڈیسک) عالمی تنظیم آکسفیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی بڑی معیشتوں سے تعلق رکھنے والے ارب پتی افراد نے گزشتہ سال 2.2 کھرب ڈالر کمائے، جو دنیا بھر سے غربت ختم کرنے کے لیے کافی رقم تھی۔ خبر رساں اداروں کے مطابق برطانوی فلاحی تنظیم نے رواں ہفتے ہونے والے طاقتور جی20 ممالک کے سربراہ اجلاس پر زور دیا کہ وہ جنوبی افریقا کی جانب سے عالمی سطح پر بے پناہ دولت کی عدم مساوات اور ترقی پذیر ممالک کو کمزور کرنے والے قرضوں کے مسئلے کے حل کے لیے پیش کی گئی تجاویز کی حمایت کرے۔ آکسفیم نے بتایا کہ فوربز کی فہرست میں شامل اعداد و شمار کے مطابق جی 20 کے رکن ممالک کے ارب پتیوں نے گزشتہ سال 2.2 کھرب ڈالر کمائے اور ان کی مجموعی دولت بڑھ کر 15.6 کھرب ڈالر تک پہنچ گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ جو 3.8 ارب افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، انہیں اوپر لانے کے لیے سالانہ 1.65 کھرب ڈالر درکار ہیں۔ آکسفیم نے اس سفارش کی حمایت کی ہے جسے جنوبی افریقا سربراہ اجلاس میں پیش کرے گا۔ اس کے تحت عدم مساوات سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی پینل قائم کیا جائے، اسی طرز پر جس طرح اقوامِ متحدہ کا انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) عالمی حدت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کام کرتا ہے۔ آکسفیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار نے بیان میں کہا کہ اگر جنوبی افریقا کا جی 20 عدم مساوات پر ایک نیا انٹرنیشنل پینل قائم کرتا ہے تو یہ عدم مساوات کے ہنگامی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک بہت بڑا قدم ہوگا۔

انٹرنیشنل ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • ٹیکسٹائل و کاٹن انڈسٹری تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار
  • ٹیرف اور سرمایہ کاری کے ذریعے غیر ملکی زمینوں سے کھربوں ڈالر لے رہے ہیں، ٹرمپ
  • ٹیرف اور سرمایہ کاری کے ذریعے دیگر ممالک سے کھربوں ڈالر لے رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟
  • ٹیرف اور سرمایہ کاری سے دوسرے ممالک سے کھربوں ڈالر لے رہے ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ
  • تجارت کی بندش، پاکستان فائدے میں، افغانستان کو بھاری نقصان، 4 ہزار بمبار بھیجنے کی دھمکی ہمارے موقف کی توثیق: دفتر خارجہ
  • جی 20کے ارب پتیوں کی سالانہ آمدن بھوک کے خاتمے کے لیے کافی
  • طورخم بارڈر پر تجارتی بندش: پاکستان کو فائدہ، افغانستان کو سنگین معاشی دھچکا
  • پاک افغان تجارت بند ہونے سے پاکستان کو فائدہ، افغانستان کو بھاری نقصان ہونے لگا