جنگ یا نسل کشی؟ ایران میں سائنسدانوں کے اہلِ خانہ کی ٹارگٹ کلنگ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
ایرانی ایٹمی سائنسدان ’مصطفیٰ ساداتی ارمکی‘ کی موت کی خبر — جو اپنی بیوی، دو بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ اسرائیلی حملے میں مارے گئے، کسی بھی سخت دل منصوبہ ساز کو بھی چونکا دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ یہ صرف ایک درست نشانہ نہیں تھا، بلکہ ایک پورے خاندان کو چن کر مارنے کی کارروائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی حملے میں جاں بحق ایرانی سائنسدانوں میں کون کون شامل ہے؟
ساداتی ارمکی کوئی اعلیٰ عہدیدار نہیں تھے، وہ درمیانے درجے کے انجینئر تھے جو ایران کے جوہری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ممکن ہے اسی وجہ سے انہیں ہدف بنایا گیا ہو، لیکن کسی بھی منطق سے ان کے بچوں کو ان کے گھر میں قتل کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
یہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے۔ 13 جون کو اسرائیل کے حملوں میں تہران میں 5 دیگر ایٹمی ماہرین بھی مارے گئے، جن فریدون عباسی، محمد مہدی طہرانچی، عبدالحمید مینوچہر، احمدرضا ذوالفقاری دریانی اور سید امیر حسین فقہی شامل ہیں۔
یہ سب جوہری منصوبے سے کسی نہ کسی درجے میں وابستہ تھے، لیکن کوئی بھی جنگجو نہیں تھا۔ زیادہ تر پروفیسر تھے، کچھ تو پہلے ہی سرکاری ذمہ داریوں سے ریٹائر ہو چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر فریدون عباسی کون تھے؟
اور ان کے ساتھ بھی صرف وہی نہیں مارے گئے۔ کئی واقعات میں ان کے اہلِ خانہ بھی ساتھ مارے گئے، بیویاں، بیٹیاں، یہاں تک کہ ایک سینئر افسر کی بیٹی بھی۔
یہ حملے کسی مصروف شہر میں غلطی سے گرنے والے میزائل نہیں تھے۔ یہ سوچ سمجھ کر رات کے وقت کیے گئے حملے تھے، جب خاندان اپنے گھروں میں موجود تھے۔ یہ کوئی جنگی دھند نہیں تھی، بلکہ جنگ کو ایک ہتھیار کے طور پر جان بوجھ کر استعمال کرنا تھا۔
بچے نہ تو یورینیم افزودہ کرنے کی پالیسی بناتے ہیں، نہ بیویاں لیبارٹریز چلاتی ہیں، لیکن وہ صرف اس لیے مارے گئے کہ وہ کسی مطلوب شخص کے قریبی تھے۔
The assassinated nuclear scientist Fereydoon Abbasi had spoken about whether he feared being killed in his last interview, conducted only a couple weeks ago.
— Séamus Malekafzali (@Seamus_Malek) June 13, 2025
ایسے سانحات کو ’حادثاتی نقصان‘ کہنا بزدلی ہے۔ جب کوئی فیصلہ ساز کسی گھر کو نشانہ بناتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اندر کون سو رہا ہے، تو پھر یہ حادثہ نہیں، ایک ارادی عمل ہوتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غیر روایتی جنگ میں دشمن کو ذاتی طور پر خوفزدہ کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ خوفزدگی نہیں، بلکہ صاف طور پر ’صفایا‘ہے۔ یہ سوچ دکھاتی ہے کہ اب ریاستی ڈھانچوں سے جڑے کسی بھی شہری کی جان کی کوئی قدر نہیں رہی۔ پیغام یہ دیا جا رہا ہے کہ حتیٰ کہ سائنسدانوں کے خاندان بھی محفوظ نہیں۔
یہ تحریر ایران کی جوہری پالیسی کی حمایت نہیں کر رہی، بلکہ اس اصول کی حمایت کر رہی ہے کہ خاندان، خاص طور پر بچے، کبھی بھی دشمن نہیں ہوتے۔
اگر ہم یہ اصول چھوڑ دیتے ہیں، تو ہم کچھ حاصل نہیں کر رہے، بلکہ یہ مان رہے ہیں کہ قانون سے زیادہ خوف اور سفارت سے زیادہ بدلہ اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’کوئی ثبوت نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے‘، بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی
ایسے حملے نہ تو جوہری منصوبے بند کرتے ہیں، نہ ہی مستقبل کے خطرات کو روکتے ہیں۔ یہ صرف امن کو مزید دور اور بدلہ کو مزید قریب کرتے ہیں۔ جو چیز آج ہم معمول بنا رہے ہیں، کل دوسرے اس کی نقل کریں گے۔
یہ طاقت نہیں ہے، یہ حکمتِ عملی اور اخلاقیات، دونوں کی شکست ہے۔ اگر جنگ کا رخ اسی طرف ہے، تو دنیا کے ہر انسان کو، کسی بھی قوم سے ہو، شدید تشویش ہونی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ایٹمی سائنسدان ایران جنگ نسل کشیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایٹمی سائنسدان ایران کسی بھی
پڑھیں:
عفت عمر کا انڈسٹری میں کوئی دوست کیوں نہیں؟
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف ماڈل و اداکارہ عفت عمر نے اب تک انڈسٹری میں کسی کو دوست نہ بنانے کی وجہ سے پردہ اُٹھا دیا۔
عفت عمر تقریباً تین دہائیوں سے انڈسٹری میں ہیں۔ انہوں نے ماڈلنگ اور اداکاری دونوں میں اپنا لوہا منوایا۔
انہوں نے حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اتنے عرصے سے انڈسٹری میں رہنے کے باوجود ان کا کوئی دوست نہیں ہے۔
اداکارہ کا کہنا ہے کہ انڈسٹری میں کچھ لوگ ہیں جن کو مینٹورز کہہ سکتی ہوں کیونکہ انہیں میں اپنے سے بہتر سمجھتی ہوں لیکن کام کی جگہ کسی سے دوستی مشکل ہے، اس لیے میرا کوئی دوست نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے لیے دوست وہ ہے جو آپ کے اچھے اور برے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو لیکن شوبز کے لوگوں کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہے، سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔
عفت عمر نے مزید کہا کہ محبت میں ایک دوسرے کے لیے جینے مرنے کا کوئی تصور نہیں ہوتا، کوئی کسی کے لیے کبھی نہیں مرتا، لوگ زندگی میں آگے بڑھتے ہیں اور یہی دنیا کی حقیقت ہے۔ ہر کوئی اپنی لکھی ہوئی زندگی اور تقدیر جیتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے ہارے ہوئے لوگ نہیں پسند جو رونا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ مر جائیں گے۔