گزشتہ سال اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیم پیش کرنے سے قبل حکومت اور اپوزیشن سمیت میڈیا اور دیگر حلقوں کی توجہ کا مرکز جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے لیکن اب نئی ترامیم کے موقعے پر ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوگئی، آئینی ترمیم منظور ہوتی نظر آرہی ہے، فیصل واوڈا

26ویں ترمیم سے قبل وزیراعظم شہباز شریف، صدر مملکت اصف علی زرداری، محسن نقوی، بلاول بھٹو، سینیئر وزرا، چیئرمین پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن رہنماؤں اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان نے مولانا فضل الرحمان سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مختلف ترکیبیں استعمال کیں۔

ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھا کہ حکومتی وفد مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر رہا تھا اور اپوزیشن کا وفد مولانا کی رہائشگاہ کے باہر ملاقات کے لیے انتظار میں بیٹھارہا۔

صبح شام اور دن رات کی متعدد ملاقاتوں کے بعد حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم میں حمایت کے لیے قائل کر لیا تھا اور اس طرح مولانا کی حمایت سے آئینی ترمیم کی منظوری ممکن ہو سکی تھی۔

اب 27 ویں ترمیم کے موقعے پر مولانا فضل الرحمان میڈیا پر بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: مولانا فضل الرحمان ائمہ کرام کے لیے پنجاب حکومت کے وظیفہ میں رکاوٹ نہ بنیں، علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی

وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ 27ویں آئینی ترمیم کے وقت سب کی توجہ کا مرکز مولانا فضل الرحمان کیوں منظر عام پر نہیں آئے ہیں؟

جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست ایک ظالمانہ کھیل ہے جس میں مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پیش کی جانے والی آئینی ترمیم کے وقت جمیعت علما اسلام اور مولانا فضل الرحمان کی حمایت حکومت کو درکار تھی اس لیے وہ حکومت، وزیراعظم، صدر مملکت، وزرا اور اپوزیشن کی انکھ کا تارا تھے لیکن اب چونکہ حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی حمایت درکار نہیں ہے اس لیے ان سے اس حوالے سے گفتگو بھی نہیں کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمان ٹھیک شاٹس نہیں کھیل پا رہے

سینیٹر کامران مرتضیٰ۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ حکومت یا پیپلز پارٹی کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ابھی تک جمیعت علما اسلام یا مولانا فضل الرحمان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مجھے ایک کمیٹی میں آئینی ترمیم کے حوالے سے کچھ باتیں بتائیں تاہم ہمیں حکومت کی باتوں پر اس لیے اعتماد نہیں ہے کہ وہ بات تو کوئی اور کرتے ہیں لیکن جب کاغذ سامنے آتا ہے تو اس پر کچھ اور تحریر ہوتا ہے، اس لیے ہم نے ان کی باتوں کو فی الحال زیادہ سنجیدہ نہیں لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ’ساتھ کھڑے ہیں‘، ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن پر مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی حمایت کردی

جے یو آئی رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو جب مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے آئے تھے اس وقت بھی آئینی ترمیم پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن چونکہ بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کو ملاقات کی دعوت دی ہوئی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ آئندہ 2 روز میں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری سے ملاقات کے لیے جائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27 ویں ترمیم اور مولانا فضل الرحمان کی حمایت 27ویں ترمیم اور مولانا فضل الرحمان جے یو آئی مولانا فضل الرحمان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 27ویں ترمیم اور مولانا فضل الرحمان جے یو ا ئی مولانا فضل الرحمان مولانا فضل الرحمان سے مولانا فضل الرحمان کی سینیٹر کامران مرتضی آئینی ترمیم کے بلاول بھٹو سے ملاقات نے کہا کہ کی حمایت اس لیے کے لیے

پڑھیں:

آئینی ترامیم میں جلد بازی سے عوام کا اعتماد متاثر ہوگا، مولانا فضل الرحمٰن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئینی امور میں تیزی سے لائے جانے والے اقدامات خطرناک سمت کی جانب لے جا سکتے ہیں۔

جمعیتِ علما اسلام کے سربراہ  نے حکومت پر تنقید کی کہ حال ہی میں زیرِ بحث لائی جانے والی ترامیم دراصل کہیں اور سے آرہی ہیں۔ اپنے بیان میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے حالیہ موقف کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل تک وہ خود بھی کہہ رہے تھے کہ 26ویں آئینی ترمیم ہضم نہیں ہو رہی تھی، مگر آج 27ویں ترمیم کی باتیں اٹھ رہی ہیں، جو سوالوں کو جنم دیتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ ان کی کسی فرد، عہدے یا بیوروکریسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے، ان کا مقصد ملک میں تلخی اور کشیدگی کو کم کرنا ہے تاکہ آئندہ سیاسی فیصلے عوامی اعتماد کے ساتھ کیے جائیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ دینی مدارس کے معاملات میں پالیسی کس کے نقطۂ نظر سے تشکیل پائی ہے۔

انہوں نے موجودہ حکومت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ بعض اقدامات جیسے مساجد کے  اماموں کو مالی مراعات دینا اور مساجد کے انتظام میں مداخلت کے ذریعے مذہبی اداروں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں بطورِ احتجاج قابلِ نوٹس ہیں۔

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ  آئین کو کھیل تماشا بننے نہیں دینا چاہیے۔ اگر ایک سال کے اندر دوسری ترمیم متعارف کروائی جا رہی ہے تو عوام اور سیاستدان آئین پر اعتماد کیسے رکھیں گے؟ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ وہ خود 26ویں ترمیم کے دوران حکومت کو 34 شقوں سے دستبردار کرانے میں کامیاب رہے تھے۔ اس سلسلے میں اب بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ انہیں 27ویں ترمیم کا مسودہ ابھی تک وصول نہیں ہوا، تاہم اس پر اپوزیشن یکجا ہو کر متفقہ موقف اپنائے گی۔ ان کا اشارہ تھا کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں ماحول کو معتدل رکھنے کی ضرورت ہے، مگر فی الحال شدت کی جانب دھکیلنے کی کوششیں نظر آ رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • آئینی ترامیم میں جلد بازی سے عوام کا اعتماد متاثر ہوگا، مولانا فضل الرحمٰن
  • اسحاق ڈار کہہ رہے تھے 26ویں ترمیم ہضم کرنا مشکل ہے، اب 27ویں کہیں اور سے لائی جارہی ہے، فضل الرحمان
  • فیصل واوڈا کسی خاص پیغام کے ساتھ نہیں آئے تھے، مولانا فضل الرحمان کا ملاقات پر رد عمل
  • 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کیلیے پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ آمد
  • 27ویں ترمیم کا مسودہ سامنے آنے تک نکات پر بات نہیں کر سکتے، مولانا فضل الرحمان
  • 27ویں آئینی ترمیم: فیصل واوڈا کی مولانافضل الرحمن سے ملاقات
  • فیصل واوڈا کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات: 27ویں ترمیم کی منظوری میں نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ
  • ہمارا کوئی اضافی مطالبہ نہیں، ایم کیو ایم کا 27ویں آئینی ترمیم کی مکمل حمایت کا اعلان
  • مولانا فضل الرحمان اسلام آباد پہنچ گئے، 27ویں آئینی ترمیم زیرِ غور