پی ٹی آئی کیلئے قاضی فائز عیسی کا سایہ آج بھی سپریم کورٹ میں موجود،فیصلے کیخلاف اسمبلی اورعوامی سطح پراحتجاج کریں گے،بیرسٹر گوہر WhatsAppFacebookTwitter 0 27 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے اور بہت ناانصافی ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے قاضی فائز عیسی کا سایہ آج بھی سپریم کورٹ میں موجود ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ فیصلہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے، آئین کی غلط تشریح کی گئی ہے، یہ نشستیں پی ٹی آئی کی تھیں، اس فیصلے کے بعد کے پی میں 3 سیٹیں جیتنے والی جماعت کو 11 نشستیں ملیں گی۔بیرسٹر گوہر کا کہنا تھاکہ وقت بتائے گا یہ فیصلہ غلط ہے، امید ہے 26 ویں ترمیم ایک دن ختم ہوگی اور اس کے بعد جو سپریم کورٹ بنے گی وہ ضرور کہے گی یہ فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اب نظرثانی فیصلے کے بعد کسی اورعدالت میں نہیں جاسکتے، ہم فیصلے کے خلاف اسمبلی اورعوامی سطح پراحتجاج کریں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کو مالِ غنیمت کی طرح مسترد شدہ جماعتوں میں بانٹا گیا، فیصلہ آئینی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ، پی ٹی آئی پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کو مالِ غنیمت کی طرح مسترد شدہ جماعتوں میں بانٹا گیا، فیصلہ آئینی تاریخ کا ایک سیاہ ترین.

.. عدالتی فیصلہ خوش آئند، ایسی جماعت جو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں،وہ مخصوص سیٹیں کیسے حاصل کرسکتی ہے،راناثنااللہ غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی جاری، مزید 72فلسطینی شہید مخصوص نشستوں کا فیصلہ،خیبرپختونخوا اسمبلی کی نمبر گیم میں بڑی تبدیلی، علی امین گنڈاپور کی حکومت کو خطرات لاحق چھبیسویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بننے والے آئینی بینچ نے آئین کو ہرا دیا ہے، کنول شوذب مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا، تفصیلات سب نیوز پر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ سب نیوز

پڑھیں:

آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط، مذاکرات آج شروع ہوں گے

اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے سابق ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کیخلاف توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آرٹیکل 5کی شق دو کے تحت ہر شہری پر آئین کی پابندی لازم ہے۔

یہ سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ کے معزز ججز (جسٹس منصو ر علی شاہ کی سربراہی میں بینچ ) کی آئینی ذمے داری تھی کہ وہ آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کو مزید آگے بڑھانے سے اس وقت رک جاتے جب آئین کے آرٹیکل 191اے تین اور پانچ کا حوالہ دیا گیا ۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں،جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے؟

سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں قرار دیا سوال یہ ہے کہ آئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کیخلاف توہین عدالت کاروائی ممکن ہے یا نہیں،آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کو انتظامی امور میں استثنی حاصل ہے،ججز کو اندرونی اور بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے۔

ایک ججز اپنی ہی عدالت کے کسی جج کیخلاف کسی قسم کی رٹ یا کاروائی نہیں کر سکتا،محمد اکرام چوہدری کیس کے فیصلے کی مطابق ججز کیخلاف کارروائی ممکن نہیں،عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں،جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے،سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔

آرٹیکل 209 جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کیخلاف کاروائی پر قدغن لگاتا ہے، توہین عدالت قانون بنانے کا پارلیمنٹ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ایک جج دوسرے جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججز اپنے ساتھی ججز کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزا دے سکتے ہیں۔ 

اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اپنے دائرے میں مساوی حیثیت اور اختیار رکھتے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج دوسرے پر برتر یا کم تر حیثیت نہیں رکھتا کہ وہ ہدایت جاری کرے یا سزا دے سکے، اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کو اپنے ہی ساتھی جج کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی اجازت دی جائے تو یہ ان کے درمیان باہمی احترام اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے گا۔ 

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم رکھنا عدالتوں کے ہموار کام کے لیے ضروری ہے، کسی جج کا اپنے ساتھی جج کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنا اندرونی اختلافات، شکایات اور کدورتیں پیدا کرے گا، اس سے انارکی پھیلے گی اور نظامِ عدل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔ 

پاکستانی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس عدالت نے ”جسٹس (ر) افتخار حسین چوہدری و دیگر“ کیس میں سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ان جج صاحبان کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے جنہوں نے 3 نومبر 2007 کے حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی سی او کا حلف اٹھایا۔

جولائی 2009 کے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ غیرآئینی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بعد وہ صاحبان جج ہی نہیں رہے تھے۔ یہ اصول طے شدہ ہے کہ جزوی طور پر سنے گئے مقدمات کو کسی انتظامی حکم کے ذریعے منتقل نہیں کیا جا سکتا تاہم اگر کسی مقدمے کی سماعت کے دوران آئین یا قانون میں ترمیم یا نئی قانون سازی کے ذریعے عدالت کا دائرہ اختیار ختم کر دیا جائے تو وہ عدالت مزید کارروائی کی مجاز نہیں رہتی۔

کسی جج یا بینچ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ دفتر یا کسی کمیٹی کو یہ ہدایت دے کہ کوئی مخصوص مقدمہ اس کے سامنے مقرر کیا جائے جبکہ وہ مقدمہ اس کے دائرہ اختیار میں نہ ہو یا رول کے مطابق اس کے سامنے مقرر نہ کیا گیا ہو، جج صاحبان اپنے حلف، ججوں کے ضابطہ اخلاق، قانون اور قواعد کے پابند ہیں، اگر ہر جج اپنی مرضی کے مقدمے سننے لگے تو عدالت کا نظم و ضبط متاثر اور عوام کا اعتماد مجروح ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ہائیکورٹ ججز کی کارکردگی بارے اجلاس، محفوظ فیصلہ 90روز میں سنانے کی تجویز
  • عدالت عمران خان کی آخری امید ، وہ انصاف کے طلب گار ہیں:بیرسٹر گوہر
  • ہم نے انصاف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، بیرسٹر گوہر
  • ایشیا کپ: بنگلادیش کا پاکستان کیخلاف اہم میچ میں ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،کاپی سب نیوز پر
  • آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط، مذاکرات آج شروع ہوں گے
  • عمر ایوب، شبلی فراز کی نا اہلی کیخلاف درخواست، دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ
  • اسلامی نظریاتی کونسل کے ودہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار دینے پر ایف بی آر کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • اسلامی نظریاتی کونسل کا سپریم کورٹ کے رخصتی سے قبل طلاق کے فیصلے پر اظہار تحفظ
  • اعلیٰ عدلیہ کا جج اپنے ہی جج کے خلاف رٹ یا توہینِ عدالت کارروائی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ