شمالی وزیرستان میں 30 شدت پسند ہلاک کر دیے، پاکستانی فوج
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) پاکستانی فوج نے آج بروز جمعہ کہا ہے کہ افغانستان سے دراندازی کی کوشش کرنے والے 30 شدت پسندوں کو گزشتہ تین روز کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اسی علاقے میں ایک خودکش حملے میں 16 پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے شدت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا اس سے منسلک گروپوں سے تعلق رکھتے تھے۔
بیان میں بھارت پر بھی الزام عائد کیا گیا کہ وہ ان گروپوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''سکیورٹی فورسز نے پیشہ ورانہ مہارت اور تیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ممکنہ سانحے کو روک دیا۔
(جاری ہے)
‘‘ بیان میں کہا گیا کہ اس کارروائی کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا۔
یہ ہلاکتیں شمالی وزیرستان میں ہوئیں، جہاں گزشتہ ہفتے پاکستان طالبان کے ایک گروہ نے فوج پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسلام آباد طویل عرصے سےکابل پر الزام لگاتا آیا ہے کہ وہ ان شدت پسند گروپوں کو اپنی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے، تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستان نے بھارت پر بھی پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگائے ہیں، نئی دہلی اورکابل دونوں کی حکومتیں ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔
علاقائی کشیدگیمئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ شدید جھڑپوں میں 70 افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں اکثریت شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی تھی۔ یہ کشیدگی 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت سے شروع ہوئی تھی، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا تھا، تاہم اسلام آباد نے مداخلت سے انکار کیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بیانوزیرِ اعظم شہباز شریف نے ملکی فوج کی کارروائی کو سراہتے ہوئے کہا، ''ہم ملک سے دہشت گردی کی ہر شکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔‘‘
ان کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھارت پر پاکستان میں شدت پسندی کو ہوا دینے کا الزام بھی دہرایا گیا۔
سکیورٹی صورت حالافغان طالبان کے 2021ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی مغربی سرحدی پٹی پر تشدد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
2024ء ملک کے لیے گزشتہ دہائی کا سب سے خونریز سال رہا۔ 2025 میں اب تک 290 سے زائد افراد، جن میں اکثریت سکیورٹی اہلکاروں کی ہے، شدت پسندوں کے حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔پاکستان کی فوج بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف بھی برسرپیکار ہے۔ سکیورٹی کی اسی صورتحال کے پیش نظر جون میں حکومت نے دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا، جس کے تحت مجموعی وفاقی بجٹ کا 14 فیصد فوج کے لیے مختص کیا گیا۔
شکور رحیم اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) پاکستان کی سکھ برادری کے رہنماؤں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یاتریوں پر پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات پر حاضری پر عائد کردہ پابندی ختم کرے، جسے انہوں نے عالمی اصولوں اور اخلاقی اقدار کے خلاف قرار دیا۔
پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے نائب صدر مہیش سنگھ نے کہا کہ بھارت کی حالیہ پابندی، جو 12 ستمبر کو نافذ کی گئی اور جس میں سکیورٹی وجوہات کو جواز بنایا گیا، لاکھوں سکھ یاتریوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
نئی دہلی نے اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔یہ تنازع ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب دونوں ایٹمی طاقتیں مئی میںمیزائل حملوں اور اس سے پہلے کشمیر میں خونریز حملے کے بعد تعلقات محدود کر چکی ہیں۔
(جاری ہے)
ویزے معطل ہیں اور سفارتی تعلقات کم درجے پر ہیں، تاہم امریکا کی ثالثی سے طے پانے والی دوطرفہ فائر بندی برقرار ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی سمیت تمام مذہبی زائرین کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
خاص طور پر کرتارپور صاحب، جو سکھوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے، کے لیے انتظامات مکمل کیے جا رہے ہیں۔ یہ مقام پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع ہے، جو حالیہ سیلاب سے متاثر ہوا تھا۔گزشتہ ماہ بارشوں اور بھارتی ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے کے باعث کرتارپور صاحب اور آس پاس کے علاقے زیر آب آ گئے تھے اور کرتاپور صاحب کے اندر پانی کی سطح 20 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے صفائی اور بحالی کے فوری اقدامات کی ہدایت کی تھی اور یہ مقدس مقام ایک ہفتے کے اندر دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔پاکستانی اہلکار غلام محی الدین کے مطابق بھارت اگر پابندی اٹھا لے، تو اس سال کرتارپور میں بھارتی سکھ یاتریوں کی تعداد ریکارڈ سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ حکومت رہائش اور کھانے پینے کے خصوصی انتظامات کر رہی ہے۔
اس بارے میں مہیش سنگھ نے کہا، ''پاکستانی حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ بھارتی یاتریوں کے لیے دروازے کھلے ہیں اور ویزے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے جاری کیے جائیں گے۔‘‘ایک اور سکھ رہنما گیانی ہرپریت سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھارتی فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ اگر بھارت اورپاکستان آپس میں کرکٹ میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتریوں کو بھی پاکستان میں اپنے مذہبی مقامات پر جانے کی اجازت ہونا چاہیے۔
ادارت: مقبول ملک