ٹیکنالوجی کی مدد سے چین کے دیہی علاقوں کا مزید تابناک مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
ٹیکنالوجی کی مدد سے چین کے دیہی علاقوں کا مزید تابناک مستقبل WhatsAppFacebookTwitter 0 4 July, 2025 سب نیوز
بیجنگ :رواں سال گرمیوں کے آغاز سے ہی موسمیاتی تبدیلیاں تیز رہی ہیں، جس سے موسم گرما کی فصل کی کٹائی کے حالات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔چین کی وزارت زراعت اور دیہی امور کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ، 18 جون تک ،موسم گرما کی فصل کی کٹائی کا تناسب 96 فیصد تک پہنچ چکا ہے، اور سردیوں کی گندم کی بڑے پیمانے پر کٹائی بنیادی طور پر مکمل ہو چکی ہے۔ ان میں ، زرعی مشینری کے اسمارٹ سسٹم کا اہم کردار ہے۔ماضی میں، فصل کٹائی کے موسم میں زرعی مشینری آپریٹرز کو کام کی تلاش میں گھر گھر جانا پڑتا تھا اور اکثر غیر معقول آپریشنل روٹ کی منصوبہ بندی ہوتی تھی، جس کے نتیجے میں مشینوں کی غیر فعال طویل مائلیج اور کم کارکردگی ہوتی تھی.
بگ ڈیٹا کی بنیاد پر ، پلیٹ فارم آس پاس کسانوں کی ضروریات ، زرعی مشینری کی پوزیشن اور صلاحیت کے مطابق درست طریقے سے انہیں میچ کرتا ہےاور یہاں تک کہ موسمی تبدیلیوں ، زمین و فصل کی صورتحال اور دیگر اعداد و شمار کے مطابق بہترین آپریشنل روٹ کی منصوبہ بندی بھی کرسکتا ہے۔ کاشتکار صرف ایک چھوٹے پروگرام کے ذریعے اپنی کٹائی کی ضروریات کا آرڈر دے سکتے ہیں۔ مشین آپریٹرز آرڈر وصول کرنے کے بعد طے شدہ وقت پر کام پر پہنچ جاتے ہیں۔کسانوں کو مشینیں اور مشینوں کو کسان فراہم کرتے ہوئے، یہ پلیٹ فارمز دونوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ، بگ ڈیٹا ، انٹرنیٹ آف تھنگز ، اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ، ذہین زرعی مشینری آپریشن کمانڈ اور ڈسپیچ پلیٹ فارمز نے معلومات پر مبنی ایک کمانڈ اور ڈسپیچ سسٹم تیار کیا ہے جس میں ریئل ٹائم مانیٹرنگ ، آفات کی پیشگی وارننگ ، ہنگامی ردعمل ، ذہین شیڈولنگ ، پالیسی نگرانی اور دیگر افعال شامل ہیں ، جو زرعی مشینی پیداوار کے پورے عمل کا احاطہ کرتے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ کامیابی سےکاٹی گئی گندم کے ہر دانے کے پیچھے سائنس اور ٹیکنالوجی کارفرما ہے ۔پہلے کسانوں کو پنیری اٹھا کر قطار در قطار کھیتوں میں پودے لگانے پڑتے تھے، لیکن اب بیڈو نیویگیشن سسٹم اور ذہین سینسنگ آلات سے لیس بغیر ڈرائیور ٹرانسپلانٹر مشینیں پورے عمل میں انسانی مدد کے بغیر درست کام کر سکتی ہیں۔ پہلے کسان دھوپ میں پسینہ بہاتے ہوئے آبپاشی اور کھاد ڈالتے تھے، اب ذہنی آبپاشی نظام زمین کی نمی کے مطابق پانی اور کھاد ڈال سکتا ہے، جبکہ بغیر پائلٹ ڈرون بڑے پیمانے پر حشرہ کش ادویات چھڑک سکتے ہیں۔ “پسینہ بہا کر کھیتی باڑی” سے لے کر “انگلیوں کے اشارے پر کھیتی باڑی” تک، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے کسانوں کو اکیلا ہزاروں ایکڑ زمین آسانی سے منظم کرنے کے قابل بنا دیا ہے، اور یہ زیادہ موثر اور درست بھی ہےفصلوں کی کٹائی کے بعد فروخت کا عمل براہ راست کسانوں کی آمدنی سے جڑا ہوتا ہے ۔ ماضی میں معلومات کے فقدان کی وجہ سے مصنوعات کی بر وقت عدم فروخت اور آمدنی میں کمی کے واقعات عام تھے، حتیٰ کہ کسان کھیت ویران چھوڑ دیتے تھے۔ اب ای کامرس پلیٹ فارمز نے مصنوعات کو تیزی سے ملک بھر میں پہنچا کر آمدنی میں استحکام پیدا کیا ہے۔
انٹرنیٹ آف تھنگز کی بدولت مصنوعات کی “کھیت سے میز تک” کی پوری سپلائی چین کو ٹریک کرنا ممکن ہو چکا ہے۔جس سے دیہی برانڈز کی تعمیر میں مدد ملتی ہے۔ مزید یہ کہ جدید نیٹ ورکنگ ٹیکنالوجیز نے دیہی سیاحت اور زرعی تجربات جیسی صنعتوں کو فروغ دے کر زراعت کو دیگر شعبوں کے ساتھ مربوط کیا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے ذرائع کو وسیع کیا گیا ہے، اور دیہی ترقی کو نئی تحرک ملی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی زراعت کو بااختیار بنانا جاری رکھے ہوئے ہے ،یہ نہ صرف پیداواری طریقے کی تبدیلی،بلکہ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور دیہی احیاء کو فروغ دینے کا اہم سہارا بھی ہے۔
چین ایک بڑا زرعی ملک ہے لیکن جدیدکاری کے عمل میں شہری اور دیہی علاقوں کی ترقی میں عدم توازن کا مسئلہ موجود ہے۔ بڑی تعداد میں نوجوان کسان ملازمت کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور دیہات کو آبادی اور پیداواری افرادی قوت میں کمی کا سامنا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نہ صرف ناکافی افرادی قوت کےلیے ایک حل فراہم کرتی ہے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان کسانوں کو دیہی علاقوں کی جانب راغب کرتی ہے ،جو جدید زراعت کی ترقی کو نئے خیالات سے ہم کنار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کسانوں کی “اسمارٹ فارمنگ”میں مدد کرتے ہیں۔ڈرونز، سینسرز، بگ ڈیٹا ، یہ نئے “زرعی ٹولز” دیہی علاقوں میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں جبکہ کسانوں کو جدید سہولیات اور روشن مستقبل فراہم کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی، چین ٹیکنالوجی کے اشتراک اور انسانی وسائل کی تربیت کے ذریعے اپنے تجربات عالمی سطح پر بانٹ رہا ہے اور بین الاقوامی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور جرمنی کے درمیان سفارتی و سلامتی سے متعلق اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا انعقاد چین اور یورپی یونین کی ترقی کا مستقبل مشترکہ مفادات پر مبنی ہے، چینی وزیر خارجہ اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی کا سلسلہ جاری، انڈیکس ایک لاکھ 31 ہزار سے تجاوز کرگیا امپورٹڈ گاڑیوں، کاسمیٹکس سمیت 6980اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ٹیکسز میں کمی چین کے مفادات کی قیمت پر کسی بھی تجارتی معاہدے کے خلاف جوابی اقدامات اٹھائے جائیں گے، چینی وزارت تجارت دوسری چین وسطی ایشیاء سمٹ سے شی جن پھنگ کے اہم خطاب کا سنگل ایڈیشن شائع چین ہمیشہ یورپی انضمام کے عمل کی حمایت کرتا ہے ،چینی وزیر خارجہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کی دیہی علاقوں
پڑھیں:
50 فیصد سے زائد بھارتی ایرانی کسانوں کی اولاد ہیں،جدید تحقیق
لاہور:جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 50 فیصد سے زائد بھارتی لوگ ایرانی کسانوں کی اولاد ہیں ،ایرانی کسانوں نے 5 تا 7 ہزار سال قبل ہندوستان پہنچ کر کھیتی باڑی شروع کی تھی.
گویا اہل بھارت کی اکثریت کے اجداد قدیم ایرانی نکلے۔اس ضمن میں حال میں امریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے منسلک ماہر ِانسانی ارتقائی جینیات، ایلسی کرڈوتکف نے مع ٹیم اہل بھارت کے جینز کا عالمی ڈیٹا میں محفوظ کروڑوں جینز سے تحقیقی موازنہ کیا۔
تین عشروں سے عالمی ماہرین جینیات لاکھوں بھارتی باشندوں کے جین (Gene)جمع کر چکے کہ ان کے اجداد کا سراغ لگے۔گویا اہل بھارت کی اکثریت کے اجداد قدیم ایرانی نکلے۔
پھران میں وسطی ایشیا سے آئے قبائل کے جینز زیادہ جن کی اولاد ’’آریہ‘‘کہلائی اور ذات پات کا نظام قائم کیا۔تیسرے نمبر پر ان افریقی شکاریوں کے جینز آئے جو 50 ہزار سال قبل ہندوستان پہنچے۔
انہی کی اولاد نے ایرانیوں کے ساتھ ادغام سے وادی سندھ تہذیب کی بنیاد رکھی۔مگر یورشین اسٹیپی کے جنگجو قبائل نے تہذیب برباد کردی جس کے بیشتر ساکن جنوبی ہند ہجرت کر گئے۔اگر اہل پاکستان کے جینز کا تجزیہ ہو تو شاید بیشتر کا تعلق قدیم ایرانی وعرب باشندوں سے نکلے۔