ٹیکساس میں شدید طوفانی بارشوں سے 51 افراد جاں بحق، درجنوں لڑکیاں لاپتہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹیکساس: امریکی ریاست ٹیکساس کے مرکزی علاقے میں اچانک آنے والے شدید سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں اب تک 51 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے، جن میں کم از کم 15 بچے بھی شامل ہیں، متعدد افراد تاحال لاپتہ ہیں جس میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے جبکہ امدادی ٹیمیں مقامی شہریوں، سیاحوں اور کیمپنگ کرنے والے افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کی صبح آنے والے طوفان میں تقریباً 15 انچ بارش ریکارڈ کی گئی، جس سے 137 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع گواڈالوپ دریا کے اطراف کا علاقہ زیر آب آگیا، 850 سے زائد افراد کو ریسکیو کر لیا گیا، جن میں بعض درختوں سے چمٹے ہوئے اپنی جانیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
کیر وِل شہر کے مینیجر ڈالٹن رائس کے مطابق “کیمپ مسٹک” میں موجود 27 لڑکیاں لاپتہ ہیں، حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ رائس نے کہا کہ “ہم دو طرح سے دیکھ رہے ہیں، ایک تو وہ لاپتہ افراد جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے اور دوسرا وہ جن کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں۔
کیر کاؤنٹی کے جج روب کیلی نے کہا کہ “یہ ایک اچانک آنے والی آفت تھی، ہمیں معلوم ہے کہ یہاں دریا بلند ہوتے ہیں مگر کسی نے اتنی تیز اور خطرناک صورتحال کی پیشگوئی نہیں کی تھی، مقامی شیرف لیری لیتھا کے مطابق 8 افراد کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی، جن میں 3 بچے بھی شامل ہیں۔
واقعہ کے وقت آزادی امریکا (Independence Day) کی چھٹیوں کے باعث علاقے میں بڑی تعداد میں سیاح اور خیمہ زن موجود تھے۔ ریاست کے لیفٹیننٹ گورنر ڈین پیٹرک کے مطابق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دریا کے کنارے کتنے لوگ خیموں، ٹریلرز یا کرائے کے گھروں میں مقیم تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے ہنگامی صورتحال کے پیش نظر آفت زدہ قرار دینے کی درخواست کی ہے تاکہ وفاقی امداد حاصل کی جا سکے، امریکی وزیر داخلہ کرسٹی نوم کے مطابق صدر ٹرمپ اس درخواست کو منظور کریں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹیکساس کے عوام کیلئے دعاگو ہیں اور “ہمارے بہادر ریسکیو اہلکار وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو وہ بہترین انداز میں کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ کیر کاؤنٹی کے لیے فوری خطرہ ٹل گیا ہے، وسیع تر علاقے میں سیلابی صورتحال کے خدشات بدستور موجود ہیں، اور فلڈ واچ شام 7 بجے تک جاری رہے گی۔
واضح رہے کہ قومی موسمیاتی ادارہ (NOAA) اس وقت شدید عملے کی کمی کا شکار ہے، کیونکہ موجودہ حکومت نے محکمہ میں ہزاروں ملازمتیں ختم کر دی ہیں، جس سے پیشگی انتباہی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ NOAA کے سابق سربراہ رِک اسپنراڈ کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پیشگی الرٹ ناکافی ثابت ہوئے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
ملک بھر میں رواں سال مون سون کی بارشوں سے 998 افراد ہلاک اور 1062 افراد زخمی ہوئے جبکہ مجموعی طور پر 3 کروڑ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود ملک میں پیشگی انتباہی نظام یعنی ارلی وارننگ سسٹم کا نہ ہونا حالیہ تباہی کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔ اب سینیٹ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (پی ڈی ایم) نے سیلاب اور بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مون سون کا آخری اسپیل اختتام کے قریب،5 ہزار سے زائد دیہات زیر آب: چیئرمین این ڈی ایم اے
سینیٹ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت منعقد ہوا، کمیٹی اجلاس میں رکن کمیٹی سینیٹر وقار احمد نے کہا کہ ملک میں پیشگی انتباہی نظام کا نہ ہونا حالیہ تباہی کی بڑی وجہ بن رہی ہے، سندھ اور کراچی میں ہونے والی بارشوں کے موقع پر پی ایم ڈی نے غلط وارننگ جاری کی تھی۔
پی ڈی ایم اے سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس محدود وسائل ہیں، بارشوں سے قبل پی ایم ڈی اور این ڈی ایم اے کی مختلف رپورٹس آ رہی تھی اور پی ایم ڈی نے غلط جگہ پر زیادہ بارشوں کی اطلاع دی تھی، ہم نے اس مقام پر تیاری کی اور بارش کسی اور جگہ ہو گئی جس سے نقصانات ہوئے، حیدرآباد میں بھی 27 اگست کو این ڈی ایم اے اور پی ایم ڈی نے الگ الگ پیشنگوئیاں بھیجیں تھیں۔
اس موقع پر پی ایم ڈی حکام نے بتایا کہ پی ایم ڈی صرف بارشوں کی پیشگوئی کرتا ہے جبکہ پی ڈی ایم اے اس پیشنگوئی کا جائزہ لے کر وارننگ جاری کرتا ہے۔
ملک میں پیشگی انتباہی نظام کے نہ ہونے پر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، فلیش فلڈنگ کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، مقامی لوگوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ان کے مویشی اور بہت سی قیمتی اشیا پانی میں بہہ جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں چرواہے کا کردار سب نے دیکھا ہے، چرواہے کی بروقت اطلاع دینے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی جان بچ گئی۔
کمیٹی اجلاس میں حالیہ سیلاب، متاثرین کی حالت، امدادی سرگرمیوں کی پیشرفت، پینے کے پانی کی صورتحال اور حکومتی اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ حالیہ سیلاب کے باعث ملک بھر میں تقریباً 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 3 لاکھ سے زائد افراد اب بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم شہباز شریف کا سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے نتیجے میں 998 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ 1062 افراد زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب رہا جہاں 29 لاکھ لوگ سیلاب کی زد میں آئے۔
سینیٹر شیری رحمان نے حکومت کی جانب سے متاثرہ افراد کو بروقت مالی امداد نہ دیے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو فوری طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت امدادی رقوم منتقل کی جائیں کیونکہ اس حوالے سے تاخیر کسی صورت قابل قبول نہیں۔
کمیٹی نے خیمہ بستیوں میں موجود لوگوں کی حالتِ زار پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خیمہ بستیوں میں صاف پانی، بجلی، صحت کی بنیادی سہولیات اور انسانی وقار کے مطابق حالات مہیا کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو عارضی خیموں سے متاثرین کو مستقل رہائش فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ انہیں بار بار قدرتی آفات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے بریفنگ میں بتایا کہ حالیہ سیلاب کا آغاز خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر اور شمالی علاقہ جات میں گلگت بلتستان سے فلیش فلڈنگ کی صورت میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور پاکستان اب دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو ماحولیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب میں سیلاب سے کتنے نقصانات ہوئے، پی ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں
انہوں نے کہا کہ ملک میں سردیوں کا دورانیہ کم اور گرمیوں کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اپریل 2025 کو گزشتہ 65 سال کا گرم ترین اپریل قرار دیا گیا ہے۔
بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ میں پاک فوج اور نیوی کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن جاری ہیں۔ اب تک ملک بھر میں 2000 سے زائد ریلیف کیمپس قائم کیے جا چکے ہیں جہاں متاثرین کو عارضی پناہ دی جا رہی ہے۔ تاہم چیئرمیں کمیٹی نے ان کیمپس کی حالت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہاں انسانی معیار کے مطابق سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
این ڈی ایم اے بارشیں پی ڈی ایم اے سیلاب