اداکارہ حمیرا اصغر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری، پولیس کا کیا کہنا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
کراچی کے فلیٹ میں مردہ پائی جانے والی اداکارہ حمیرا اصغر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری ہو گئی ہے لیکن ان کی موت کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم نے تجزیے کے لیے تمام متعلقہ نمونے جمع کر لیے ہیں۔ موت کی وجہ فی الحال محفوظ رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاش انتہائی حد تک گل سڑ چکی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ تقریباً ایک ماہ پرانی ہے۔
ڈاکٹر سمعیہ کے مطابق لاش اس حد تک خراب ہوچکی کہ موت کی وجہ فوری طور پر طے نہیں کی جا سکتی۔ ڈی این اے اور کیمیکل تجزیے کے سیمپل حاصل کر لیے گئے اور رپورٹ کے منتظر ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی مکمل رپورٹ آنے پر حقائق سامنے آئیں گے۔ پولیس کے مطابق لاش عمارت کے چوتھے فلور پر واقع فلیٹ سے ملی تھی۔
متوفیہ حمیرا اصغر علی کا تعلق لاہور سے بتایا جاتا ہے اور وہ ڈیفنس میں کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھیں۔
ایس ایس پی ساؤتھ مہظور علی کے مطابق فلیٹ کے مالک نے کرایہ ادا نہ کرنے پر اداکارہ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا اور منگل کی شام جب عدالتی حکم پر بیلف کے ہمراہ پولیس اہلکار دروازہ توڑ کر فلیٹ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک ناقابل شناخت لاش ملی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فلیٹ کو سیل کر کے شواہد اکٹھے کیے ہیں اور واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
علاقہ مکینوں کے مطابق متوفیہ مذکورہ فلیٹ میں سات برس سے مقیم تھیں۔
ایس ایس پی نے کہا کہ لاش کئی روز پرانی ہونے کے باعث اس کی حتمی شناخت ممکن نہیں، ڈی این اے سیمپلز کی مدد سے ہی شناخت ممکن ہوسکے گی۔ ’سوشل میڈیا پر موجود تصاویر دیکھ کر کہنا مشکل ہے یہ لاش اسی خاتون کی ہے، اب تک خاتون کا کوئی بھی قریبی عزیز سامنے نہیں آیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں 60فیصد اضافہ
— فائل فوٹوفریڈم نیٹ ورک نے پاکستان میں صحافیوں پر حملوں سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کر دی۔
فریڈم نیٹ ورک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے اظہارِ رائے کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق نومبر 2024ء سے ستمبر 2025ء کے دوران صحافیوں پر حملوں کے 142 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کیسز پنجاب اور اسلام آباد سے رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے پہلے سال کے دوران 36 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 22 پیکا اور 14 پاکستان پینل کوڈ کے تحت تھے۔