نئے بجٹ کے نفاذ میں تین دن باقی تھے کہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں صنعتی و کمرشل سوئی گیس کی قیمت دس فی صد مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جب کہ گھریلو صارفین کے فکسڈ چارجز میں چار سو سے ایک ہزار کا اضافہ بھی کر دیا گیا اور HM31 سے زیادہ کھپت کے چارجز بھی بڑھا کر تین ہزار روپے ماہانہ کر دیے گئے اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے دولت مند ارکان نے یہ نہیں سوچا کہ 463 ارب کے نئے ٹیکسوں میں اضافے کے بعد پہلے سے شدید مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام پر ان حکومتی فیصلوں کا کیا اثر ہوگا اور ان کی پہلے سے ہی مشکل میں شکار زندگی مہنگائی بڑھنے سے مزید اجیرن ہو جائے گی۔
ملک کے سب سے بڑے کراچی چیمبر نے نئے بجٹ میں سیلز ٹیکس 37اے اے کے خلاف شہر میں احتجاجی بینرز آویزاں کردیے اور اس حکومتی اقدامات پر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کردیا اورکہا کہ یہ صرف آغاز ہے اگر ہمارے مطالبات کو نظرانداز کیا گیا تو کراچی سمیت ملک بھر میں ہڑتال کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچے گا۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینے سے کاروباری طبقے کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں ڈسٹری بیوٹرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کی اکثریت رجسٹر نہیں ہے اور عدالت کے بجائے ایف بی آر افسروں کو دیے جانے والے اختیارات نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی (ن) لیگی حکومت کے دوسرے بجٹ میں بھی عوام کو حسب سابق ریلیف دینے کے بجائے 463 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا تحفہ دینے کے بعد بھی حکومت کا دل نہیں بھرا تھا کہ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے ذریعے گیس مہنگی کرائی گئی جس سے مزید مہنگائی بڑھے گی جس کا اثر صنعتکاروں اور کمرشل اداروں پر نہیں بلکہ عوام پر ہی پڑے گا۔
نائب وزیر اعظم اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نیاب نئے بجٹ کے بعد کہا ہے کہ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھیں گے۔لگتا ہے کہ حکومت کی تو یہ پالیسی ہے کہ پہلے سے ہی جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ہی مزید ٹیکس بڑھا کر آمدنی بڑھائی جائے اور ان سرکاری عہدیداروں کو نوازا جائے جو نہ مزید نوازے جانے کے حقدار ہیں نہ غریب ہیں اور جن لوگوں کو نوازے جانے کی اشد ضرورت ہے ان پر تو حکومت کی توجہ ہی نہیں ہے۔
حکومت نئے نئے ٹیکسوں سیاپنی آمدنی بڑھا رہی ہے تو حکومت اس بڑھی آمدنی اور غیر ملکی قرضوں کی رقم سے ارکان اسمبلی، وزیروں، مشیروں، ججز و دیگر کی تنخواہ پہلے ہی بڑھا چکی ہے اور عوام محروم رکھے گئے۔نئے بجٹ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت نے 285 اشیا پر دوبارہ ڈیوٹیز عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے یہ حکومت نے یوٹرن لیا ہے اور ریگولیٹری ڈیوٹیز میں کمی کی رفتار بھی سست کر دی ہے جب کہ پہلے تقریباً 285 درآمدی مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹیز کے مکمل خاتمے یا کمی کا فیصلہ کیا گیا تھا جو بجٹ منظوری کے بعد فوری طور واپس لے لیا گیا ہے اور حکمران عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ حکومت کی عوام دشمن پالیسی ہے کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے واپس لے لو جب کہ حکومت نے پہلے جن خاص لوگوں کی اور حال ہی میں اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 50 فی صد تک کا جو اضافہ کیا تھا جس کی رپورٹ وزیر اعظم نے اعتراضات پر طلب کی تھی وہ رپورٹ اب کہیں نظر نہیں آئی، صرف وزیر خزانہ کا حمایتی بیان سامنے آیا تھا مگر بعد میں پہلے والوں کی طرح ان عہدیداران پارلیمنٹ کی تنخواہ میں کمی تک کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا۔اپنی سخت شرائط پر قرض دینے والے آئی ایم ایف کو ارکان و عہدیداران پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی، ججز اور دیگر بڑوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے پر اعتراض نہیں ہے تو حکومت یہ فیصلے کیوں واپس لے۔
حکومت کے مطابق تو آئی ایم ایف عوام کو ریلیف دینے کے حکومتی فیصلوں کی اجازت نہیں دیتا جب کہ حکومت اس کو قرضوں کی واپسی عوام کا خون نچوڑ کر مہنگائی مزید بڑھا کر کرتی ہے مگر صرف وہ حکومتی فیصلے واپس ہوتے ہیں جن سے عوام کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہو۔بڑے اور نوازے ہوئے افراد کی مراعات بڑھانے والا کوئی ادارہ ملک میں ہے نہیں اور آئی ایم ایف بھی حکومت کے عوام کو ریلیف دینے کے فیصلوں پر ہی اعتراض کرتا ہے۔
اس لیے حکومت من مانیوں اور اپنوں کو نوازنے میں بڑی فراخ دل ہے۔عالمی سطح پر پٹرول کے نرخ کم ہوں تو حکومت پٹرولیم مصنوعات پر پہلے سے عائد لیوی بڑھا کر عوام کو سستا پٹرول نہیں دیتی۔ حکومت جب چاہے بجلی وگیس مزید مہنگی کردے یا پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نئے ٹیکس لگا دے کوئی اسے نہیں روکتا۔ کوئی اگر قیمتیں بڑھانے کے حکومت دشمن فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کرے تو عدلیہ بھی حکومت کو نہیں روکتی بلکہ حکومت کا اسے انتظامی فیصلہ قرار دے کر عوامی درخواستیں سنتی ہی نہیں اور عوام کے پاس داد رسی کا کوئی ادارہ ہی نہ ہو تو حکومت من مانے حکومتی فیصلوں میں مکمل آزاد ہو جاتی ہے۔ حکومتی فیصلے ہر قسم کی گرفت سے مکمل آزاد ہیں۔
ارکان پارلیمنٹ و اسمبلیوں کا عوام سے تعلق الیکشن کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ الیکشن سے قبل نگران حکومتیں مہنگائی مزید بڑھا کر عوام کی کمر مزید توڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے عوام بھول جاتے ہیں کہ پانچ سال پہلے والی حکومتیں ظالم تھیں یا نگران حکومتیں، اس لیے وہ پھر ان ہی کو ووٹ دیتے ہیں جنھوں نے اپنے وعدے بھلا کر عوام دشمن فیصلے کیے تھے اور دوبارہ آ کر بھی انھوں نے عوام کو ریلیف نہیں دینا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ حکومت تو حکومت نئے ٹیکس بڑھا کر پہلے سے عوام کو دینے کے کر عوام عوام پر ہیں اور ہے اور کے بعد
پڑھیں:
آئینی ترامیم سے پہلے اس پر بات کرنا مناسب نہیں، احسن اقبال
فائل فوٹووفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم سے پہلے اس کے خد و خال پر بات کرنا مناسب نہیں ہے، وفاقی حکومت کو آئین میں تبدیلی کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھتی ہیں۔ 
دورہ کراچی کے دوران وفاقی وزیر نے گرین لائن منصوبے کے کیپ آفس کا دورہ کیا، اس موقع پر صوبائی وزیر جام خان شورو، ترجمان سندھ حکومت راجا خلیق الزمان بھی موجود تھے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ بھارت اپنے سہولت کاروں کے ذریعے پاکستان میں انتشار چاہتا ہے۔
اس موقع پر پاکستان انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) جام خان شورو و دیگر کو بریفنگ دی۔
احسن اقبال نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے بات کریں گے، مجھے یقین ہے کہ گرین لائن پر کام جلد شروع ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلی میئر سے بات کریں گے کہ پی آئی ڈی سی ایل کے ساتھ مل کر کام کریں، گرین لائن کا یہ فیز ٹو شہباز شریف کا تحفہ ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ بھارتی خود اپنی قیادت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اس سال اس پروجیکٹ کے لیے 3 ارب روپے مختص کئے ہیں، اس کے اندر 3 اسٹیشن ہیں، آج خوشخبری سنانے آیا ہوں۔ کے 4 منصوبے کےلیے بھی کوشش کررہے ہیں کہ جلد سے جلد مکمل کیا جائے، اس کےلیے بھی تمام فنڈز جاری کیے جائیں گے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ایک حکومت کی قیمت کئی دہائیوں تک کو چکانی پڑے گی، اتفاق رائے کے بعد ہی آئین میں ترمیم ممکن ہوسکے گی، اتفاق رائے سے پہلے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سکھر حیدرآباد کے منصوبے کو 2018 ءمیں ٹینڈر کرنا تھا، تاخیر سے قیمت بڑھ گئی، اس دور میں سکھر حیدر آباد موٹروے مکمل کریں گے۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ چمن کوئٹہ کراچی کےلیے ایک سڑک بھی بنائیں گے، جسے 2 سال تک مکمل کریں گے، کے 4 کی آگمین ٹیشن کا منصوبہ ہے، اس پر حکومت سندھ کام کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی پی اور ن لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں موجودہ سیٹ اپ کو رخصت کیا جائے، وہاں 2 جماعتیں مل کر عدم اعتماد لا رہی ہیں۔
اس سے قبل میری ٹائم ایکسپو کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں احسن اقبال نے کہا کہ پورٹ قاسم سمیت تمام بندرگاہوں کو جدید بنا رہے ہیں، پاکستان دنیا کا سمندری ٹریڈ روٹ ثابت ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں توانائی، آئی ٹی، معدنیات اور بلیو اکانومی سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں، دنیا کی خوشحالی سمندری وسائل کے موثر استعمال پر منحصر ہے، سمندر پاکستان کی معاشی ترقی کا بہترین ذریعہ ہے۔