سیاسی نعروں کے بجائے ، عوام کیلئے کام کریں،علی امین گنڈا پور
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
پشاور( نیوز ڈیسک) وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پورنے کہا کہ سیاسی نعروں کےلئے کام نہیں کرنا، عوام کے لئے کام کرنا ہے۔
پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پورکا کہنا تھا کہ جب اقتدارسنبھالا تو کافی منصوبے التوا کا شکارتھے، زیرالتوا منصوبوں کومکمل کرنا بھی ضروری تھا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نئی سکیمیں شروع کرنے کے بجائے زیرالتوا منصوبوں پر فوکس کیا، ہم نےایک سال میں 144 سکیمیں مکمل کیں، جب حکومت سنبھالی توخزانےمیں 18 دن کی تنخواہ تھی، بانی پی ٹی آئی کے ویژن کے مطابق جو علاقے پیچھے ہیں ان کو اوپر لائیں گے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ اس سال ہم اپنےوسائل مزید بڑھا رہے ہیں، وہی منصوبےشروع کروں گا جو ہماری مدت میں ہی مکمل ہوں گے، گزشتہ حکومتوں نے دارالخلافہ پر توجہ نہیں دی، جس پر افسوس ہی کر سکتے ہیں ، گزری باتوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ جب صوبہ کی حکومت سنبھالی تو پرانے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے، نگران حکومت نے تنخواہوں اور صوبے کو چلانے کے لئے پیسے نہیں چھوڑے تھے، کامیاب وہ ہیں جو غلطی پر معافی مانگے، اپنے اصولوں پر قائم رہنے سے بھی کامیابی ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی سکیموں کےلئے 130 ارب دینے ہیں ،441 پرانی سکیموں کو مکمل کرنا ہے ، 50 ارب روپے اے ڈی پی پلس دیں گے، پورے صوبے میں کوئی تحصیل ایسی نہیں ہوگی جس میں ہسپتال نہ بنائے، سیاسی نعروں کےلئے کام نہیں کرنا، عوام کے لئے کام کرنا ہے۔
وزیراعلی خیبر پختونخوا نے کہا کہ لوگ ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ تحصیل بنا دیں، صرف نام کےلئے تحصیلیں نہیں بنانی ، پندرہ سالوں میں 30 سے 35 ارب روپے صرف تحصیل کے نام لگ چکے ہیں، کوہستان ، کولائی پالس میں کوئی کالج و ڈی ایچ کیو نہیں ہے دل کے امراض کےلئے پورے صوبے میں ایک ہسپتال ہے۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ کوئی مریض آتا ہے تو اسے کہتے ہیں تین مہینے بعد آئیں، یہاں ہسپتالوں پر بوجھ ہے، چار ریجنز کے اندر ایک دل کے امراض کا بڑا ہسپتال ہوگا، ڈی آئی خان کے ایک پورے حلقے میں کوئی کالج نہیں ہے، جوتے مارنے چاہیے ایسے رہنماوں کو، ان حلقوں کے نمائندے اب تک کیا کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے بلڈنگ نہیں بلکہ ہسپتال اور سکول چاہیے، میرا مقابلہ ایک دو سے نہیں بلکہ پچھلی چار حکومتوں سے ہے۔
مزید پڑھیں :سنسنی پھیلانے والے یوٹیوبرز کیخلاف ایکشن
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا نے کہا کہ
پڑھیں:
پاکستانی سیاست اور مہنگائی
پاکستانی سیاست پر اس وقت ابہام اور افواہوں کا راج ہے۔ حکومتی ایوانوں میں اندرونی خلفشار کی افواہیں، سیاسی لیڈروں کی مبہم باتیں اور یوٹیوبرز کی بغیر ثبوت باتیں، سیاسی موسم کو ترو تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت بے قابو ہے جس نے ہر پاکستانی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، حکومت کے مثبت اقدامات بھی وہ ثمرات نہیں دے پا رہے جن کی توقع کی جارہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گہری نظر ڈالیں تو کئی ایسے عوامل ہیں جو بحث و مباحث کا باعث بن رہے ہیں۔
اپوزیشن کی ناراضگی برقرار ہے اور وہ موجودہ حکومت کو اپنی ترجمان حکومت نہیں سمجھتے۔ اگرچہ پاک بھارت جنگ کے بعد افواج پاکستان کی حمایت میں قوم متحد نظر آئی ہے لیکن حکومت سے ا پوزیشن کی ناراضگی واضح ہے۔ اس ناراضگی کا حکومت کو بخوبی علم ہے اور اس ناراضگی کا تدارک کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس وقت عوام کی سب سے بڑی پریشانی مہنگائی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سے لے کر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔
حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں سبسڈی دینا، درآمدات کو منظم کرنا اور مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ تاہم ان اقدامات کے ثمرات ابھی تک عوام تک واضح طور پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا براہ راست اثر عوام کی قوت خرید پر پڑ رہا ہے۔ جب تک عوام کو اپنی زندگی میں بہتری محسوس نہیں ہوگی حکومت کے حق میں عوامی رائے سازی مشکل ہی رہے گی۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان کھینچا تانی اور بعض اوقات پالیسیوں پر غیر یقینی کی کیفیت یہ سب حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ عوام ایسے حکمرانوں پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جو متحد ہوں جن کی پالیسیاں واضح ہوں اور جو ایک سمت میں ملک کو لے کر چل رہے ہوں۔ جب حکومتی ایوانوں میں ہی بے چینی اور عدم اطمینان کا تاثر ابھرتا ہے تو لا محالہ اس کا اثر عوامی تاثر پر بھی پڑتا ہے۔
حکومتی اتحادی وقتاً فوقتاً حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر کے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن پھر کوئی بڑا بیچ میں پڑ جاتا ہے اور یہ ناراضگی وقتی طور پر دور ہو جاتی ہے گو کہ حکومت کو مقتدرہ کی بھر پور حمائیت حاصل ہے لیکن حکومت کو اپنی رٹ مضبوط بنانے اور عوامی تاثر بہتر بنانے کے لیے از خود کام کرنا ہے، سیاسی میدان میں سیاست دان ہی کھیلتے اچھے لگتے ہیں اور سیاست دانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انھوں نے ایک لمبی اننگز کھیلنی ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہوں۔
پاکستانی سیاست میں اپوزیشن کا کردار بھی حکومت کی عوامی پذیرائی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن مضبوط اور متحرک ہو تو وہ حکومتی کمزوریوں کو اجاگر کرتی ہے اور عوام کو متبادل فراہم کرتی ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک شدید تناؤ کی کیفیت ہے جس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے ۔اسمبلیوں میں اپوزیشن اراکین کی آواز کو دبانے کے لیے جو حربے استعمال کیے جارہے ہیں، وہ جمہوریت کے پنپنے سے زیادہ جمہوریت کو کمزور کررہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی معطلی اور بعد ازاں ان کی رکنیت کے خاتمے کے لیے اسپیکر کا الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا معاملات کو مزید تلخ بنا رہا ہے ۔حکومتی عہدیداروں کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مکالمے کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، یہی عمل ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ سیاسی تاریخ میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں پایا۔ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس کی حکومت کو ختم کر دیا گیا یا اسے حکومت سے الگ کر دیا گیا۔ اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں کیا کچھ نیا ہونے والا ہے یا یہ صرف افواہیں ہی ہیں لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ہر افواہ کے پس پردہ کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے ۔ اسلام آباد کا موسم گو کہ حبس زدہ ہے لیکن ابھی تک سیاسی موسم میں اتنی حبس عود نہیں کر آئی کہ یہ حبس زدہ موسم حکومت کی سانس ہی بند کر دے ۔ البتہ ایک واضح بے چینی دیکھنے سننے میںضرور آرہی ہے ۔
معلوم نہیں کہ مملکت پاکستان کا موسم کب خوشگوار ہو گا جس میں عوام اور حکمران چین کی بانسری بجائیں گے ۔ پاکستان کی سیاست کو اس نہج پر لے جانا جہاں استحکام اور عوامی فلاح کا راج ہو ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت، اپوزیشن اور تمام اسٹیک ہولڈرز ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو ذاتی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دیں۔ بصورت دیگر بے یقینی کا یہ بھنور ملکی ترقی اور جمہوریت کے بقاء کے لیے مزید چیلنجز پیدا کرتا رہے گا۔