سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کے مقدمات کا ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کردی
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
عدالت عظمیٰ نے فواد چوہدری کے مقدمات کا ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شکر کریں عدالتیں کام کررہی ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی 9 مئی کے مقدمات کو یکجا کرنے کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فریق کا حق متاثر نہ ہو، اس لیے فریقین کی موجودگی میں فیصلہ تحریر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور فواد چوہدری کو چیمبر میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’شکر کریں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مختلف اضلاع میں مقدمات ہونے کی وجہ سے درخواست گزاروں کو استثنا حاصل ہو رہا ہے، حتیٰ کہ فواد چوہدری کو بھی لاہور ہائی کورٹ سے حاضری سے استثنا ملا ہے۔
اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے اعتراض اٹھایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس میرٹس پر نہیں چلا، بلکہ صرف ناقابلِ سماعت قرار دے کر اعتراض عائد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے خلاف ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھنے کا باقاعدہ اسپیکنگ آرڈر جاری نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یہ اعتراضات بھی لاہور ہائی کورٹ نے ہی دیکھنے ہیں، اس لیے کیس وہیں سنا جانا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ نے فواد چوہدری کی جانب سے مقدمات کے ٹرائل کو حتمی فیصلے تک روکنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل پر حکم امتناع دینا ہائی کورٹ کا اختیار ہے۔ فواد چوہدری نے شکایت کی کہ ان کا ٹرائل رات بارہ بجے تک جاری رہتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ’شکر کریں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔‘
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو دونوں فریقین کے مقدمات پر اثر پڑ سکتا ہے، اس لیے یہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہی طے ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاہور ہائی کورٹ فواد چوہدری چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے مقدمات کورٹ نے
پڑھیں:
سپریم کورٹ، زیر حراست ملزمان کے میڈیا پر اعترافی بیانات چلانے سے روکنے کیلیے اقدامات کا حکم
اسلام آباد:سپریم کورٹٰ نے پولیس کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے ملزم کے ریکارڈ کیے گئے اعترافی بیان کے قابل قبول ہونے کو مسترد کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کراچی میں ایک بچے کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔
ٹرائل کورٹ نے اسے موت کی سزا سنائی تھی جبکہ ہائی کورٹ نے واقعاتی شواہد اور ٹی وی انٹرویو میں اس کے اعتراف جرم کی بنیاد پر اس کی توثیق کی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ایسے ملزم کا پولیس افسر کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے اعتراف جرم اس کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا جب تک اسکا بیان مجسٹریٹ کی موجودگی میں نہ لیا جائے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ کسی رپورٹر کو ملزم کے انٹرویو کیلئے رسائی دی جائے، اسکا بیان ریکارڈ کیا جائے اور پھر اسے عوام میں پھیلایا جائے۔
اس مقدمے میں متعلقہ تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کا انٹرویو کرے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا،
یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں زیرِ حراست ملزم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا گیا ہو،ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے جو نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، کسی جرم کی خبریں ہمیشہ لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں، خاص طور پر جب کیس ہائی پروفائل ہو یا جرم کی نوعیت عام لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو۔
عدالت نے قرار دیا کہ ایسے کیسز میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی میڈیا ٹرائل کا باعث بن سکتی ہے اور اس کے نتائج نہ صرف ملزمان بلکہ دیگر متاثرین کے لیے بھی ناقابل تلافی ہو سکتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ میڈیا کے پاس بیانیہ تخلیق کرنے کی بے پناہ طاقت اور صلاحیت ہے جو سچ یا غلط ہو سکتی ہے۔ یہ صلاحیت بھی ملزمان اور ان کے خاندان کے افراد کی زندگیوں کو برباد کرنے اور انکی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے، میڈیا کے پاس جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کسی کو ہیرو یا ولن بنانے کی انوکھی طاقت ہے اور ایسی طاقت کا ایسے معاشرے میں غلط استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں ریاست اظہار رائے کی آزادی کو دباتی ہے اور میڈیا کو کنٹرول کرتی ہے۔
میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اخلاقی ضابطوں پر سختی سے عمل کرے تاکہ ملزموں کے حقوق اور مفاد عامہ کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجداری نظام انصاف ہر معاملے میں منصفانہ ٹرائل کے حق کو یقینی بنانا ہے۔ہر ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک کہ ایک مجاز عدالت کے ذریعے منصفانہ ٹرائل سے اسے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے۔
میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابلِ قبول نہ تھا کیونکہ یہ نہ تو کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے،ایسا اقدام شاید اپنی کارکردگی دکھانے یا عوامی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو، لیکن یہ کسی طور پر عوامی مفاد میں نہیں تھا۔
سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کی کاپی سیکرٹری وزارت داخلہ،سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات،چیٔرمین پیمرا،صوبائی چیف سیکرٹریز کو بجھوائی جائے تاکہ اس فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز کی روشنی میں وہ مناسب اور فوری اقدامات کر سکیں جو کہ فوجداری کیسز کے فریقین کے حقوق اور تفتیش و مقدمے کی شفافیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کردیا۔