لودھراں کے مدرسے میں مبینہ زہریلا کھانا کھانے سے 9 بچوں کی حالت غیر، ایک جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
لودھراں کے ایک مدرسے میں مبینہ زہریلا کھانا کھانے سے شدید متاثر ہونے والے 8 سالہ ایان آصف جان کی بازی ہار گیا، جبکہ 7 طلباء اب بھی ضلعی اسپتال میں زیر علاج ہیں, زہر خورانی سے مجموعی طور پر 9 بچے متاثر ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق مدرسہ تفہیم القرآن لودھراں میں زیر تعلیم 10 طلباء مبینہ طور پر زہریلا کھانا کھانے سے بیمار ہو گئے تھے، جنہیں فوری طور پر ضلعی اسپتال منتقل کیا گیا۔
ان میں سے 8 سالہ ایان آصف کو تشویشناک حالت کے باعث بہاولپور وکٹوریا اسپتال ریفر کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔
ایان آصف کا تعلق بندرہ پُلی، بہاولپور سے تھا اور وہ قرآن حفظ کرنے کی غرض سے مدرسے میں داخل ہوا تھا۔
واقعے کی اطلاع پر سٹی پولیس بہاولپور موقع پر پہنچ گئی، جبکہ ڈی ایس پی صدر سرکل عابد حسین بھُلہ نے مدرسے کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کیا اور واقعے کی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا۔
فوڈ اتھارٹی کی ٹیم نے مدرسے کے کھانے اور پانی کے نمونے حاصل کر لیے ہیں، جنہیں تجزیے کے لیے لیبارٹری بھیجا گیا ہے۔
ڈی ایس پی کے مطابق واقعے میں ملوث ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی کارروائی جاری ہے اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ضلعی اسپتال ذرائع کے مطابق زیرِ علاج 9 طلباء میں سے 2 کو صحت یاب ہونے پر ڈسچارج کر دیا گیا ہے، جبکہ باقی 7 بچوں کا علاج جاری ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سوڈان : قیامت خیز مظالم، آر ایس ایف کے ہاتھوں بچوں کا قتل، اجتماعی قبریں اور ہزاروں لاپتہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
الفاشر: سوڈان کے شہر الفاشر میں نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں کے ہاتھوں معصوم شہریوں پر بدترین مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ آر ایس ایف کے اہلکاروں نے بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا اور شہریوں کو محفوظ مقامات پر جانے سے زبردستی روکا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، اغوا اور لوٹ مار کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں، اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر چھوڑ چکے ہیں، تاہم دسیوں ہزار لوگ اب بھی محصور ہیں اور کسی قسم کی امداد تک رسائی نہیں رکھتے۔
جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوڈان اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان کے مطابق عالمی برادری کی خاموشی اور عدم مداخلت نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں نے شہریوں کو عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا، جبکہ صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا۔ بعض اندازوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے شہر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبروں اور لاشوں کے انبار کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے نے بھی تصدیق کی ہے کہ قتل عام اور شہریوں پر منظم حملے اب بھی جاری ہیں۔
سوڈان میں جاری خانہ جنگی نے ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس تنازع میں اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی طاقتوں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ سوڈان میں جاری اس انسانی تباہی کو روکا جا سکے۔