ڈکیتی کی وارداتیں نہ رکیں تو اپنا نظام لائیں گے ،ایم کیو ایم
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی، لاقانونیت اور حکومتی ناکامی پر وزیراعلیٰ کو دورے کا چیلنج
حکومت سندھ، وزرا اور پولیس افسران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ڈاکٹر فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما نے سندھ حکومت سے کراچی میں جاری ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو پانے کا مطالبہ کرتا ہوئے کہا ہے کہ اگر اقدامات نہ کیے گئے تو پھر اپنا علیحدہ نظام لانے پر مجبور ہوجائیں گے۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کورنگی زمان ٹان میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی، لاقانونیت اور حکومتی ناکامی پر شدید تنقید کی۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ صرف کورنگی ڈسٹرکٹ میں گزشتہ ماہ درجنوں رہزنی کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ دن دیہاڑے ڈکیتی کی وارداتوں میں معصوم بچے بھی شہید کیے گئے، مگر حکومت سندھ، وزرا اور پولیس افسران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ متاثرہ لواحقین کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیے گھنٹوں تھانوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں، اور پولیس صرف نام کی رہ گئی ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ شہر کا کوئی بھی ادارہ صوبائی حکومت کی نااہلی سے بچ نہیں سکا، کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔”انہوں نے خبردار کیا کہ "اگر صوبائی حکومت یہی طرزِ عمل جاری رکھے گی تو ہمیں بتا دیں، ہم اپنا علیحدہ نظام بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔”فاروق ستار کا کہنا تھا کہ عوام کو مسلسل مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سندھ سے الگ ہونے کا سوچیں، لیکن "ایم کیو ایم سندھ سے الگ ہونے کا مطالبہ نہیں کرتی، مگر آپ کے رویے نے عوام کو اس طرف دھکیل دیا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے وزرا خود اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی ان کی ذمہ داری نہیں، جبکہ قبضہ مئیر کہتا ہے کہ "شہر کے اندرونی علاقے میری ذمے داری نہیں”۔انہوں نے مزید کہا کہ "ڈمپرز، عمارتیں گرنے اور لوٹ مار میں مرنے والوں کی جانیں کسی کے ضمیر کو نہیں جھنجوڑتیں۔”فاروق ستار نے انکشاف کیا کہ "ہزاروں پولیس اہلکار اندرون سندھ سے لاکر کراچی کی سڑکوں پر تعینات کیے گئے ہیں، جو شہریوں سے نمبر پلیٹس کے نام پر بھتہ وصول کر رہے ہیں۔”انہوں نے سندھ کے تعلیمی نظام پر بھی شدید تنقید کی کہا کہ "اندرونی سندھ کے بچوں کو زبردستی پاس کروا کر ان کا مستقبل تباہ کر دیا گیا ہے، وہ بچے جو انٹر بورڈ میں ٹاپ کر رہے تھے، این ای ڈی کے امتحانات میں فیل ہو گئے۔فاروق ستار نے واضح کیا کہ "ایم کیو ایم کبھی سندھی بولنے والے بھائیوں کے خلاف نہیں رہی، لیکن یہ ناانصافی اور مصنوعی طاقت کے بل پر خود کو وارث کہلانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ "ایم کیو ایم وقتی طور پر کمزور ہو سکتی ہے، لیکن آج ایم کیو ایم مضبوط اور منظم ہے۔ اب ہمیں ہلکا نہ لیا جائے۔”فاروق ستار نے وزیراعلی سندھ کو چیلنج دیا کہ "آئیے میرے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کریں اور خود دیکھیں کہ عوام کن اذیت ناک حالات میں جی رہے ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم
پڑھیں:
تربت میں نجی کیش وین پر ڈکیتی، 22 کروڑ روپے لوٹ لیے گئے
کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہر تربت کے نواحی علاقے دشت کھڈان کراس پر ایم-8 شاہراہ پر نجی سیکیورٹی کمپنی کی کیش وین پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے 22 کروڑ روپے سے زائد رقم لوٹ لی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ ہائی پروفائل ڈکیتی کا واقعہ منگل کے روز پیش آیا جب کیش وین تربت سے گوادر کی جانب دو نجی بینکوں کی نقدی منتقل کر رہی تھی۔ لیویز ذرائع کے مطابق، لوٹی گئی رقم میں میزان بینک تربت برانچ کے 14 کروڑ 55 لاکھ روپے اور بینک الفلاح کے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے شامل تھے۔
واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق تین سے پانچ مسلح ڈاکو جو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے انہوں نے شاہراہ پر کیش وین کو روکنے کے لیے پہلے فائرنگ کی اور پھر ہتھیاروں کے زور پر سیکیورٹی گارڈز اور ڈرائیور ہر غمال بنا کر وین میں موجود کیش لے اُڑے۔خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ڈاکو کیش باکس سے پوری رقم لوٹ کر تیزی سے فرار ہو گئے۔
لیویز حکام نے بتایا کہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا اور ڈاکوؤں کو وین کی نقل و حرکت کی پیشگی معلومات تھیں جو اندرونی سازش کا امکان ظاہر کرتی ہیں واقعے کے فوراً بعد لیویز فورس اور پولیس نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی اور سرچ آپریشن شروع کیا لیکن ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
تحقیقات کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج، عینی شاہدین کے بیانات اور قریبی علاقوں سے موبائل ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے جن سے ملزمان تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوگا البتہ بلوچستان میں حالیہ مہینوں میں ڈکیتیوں اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رواں سال مئی میں تربت کے مرکزی بازار میں ایک نجی بینک سے 25 ملین روپے لوٹے گئے تھے جس کی تحقیقات ابھی تک جاری ہیں، مقامی تاجروں اور شہریوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہائی ویز پر سیکیورٹی کو بہتر بنایا جائے اور جدید نگرانی کے نظام نصب کیے جائیں۔
ڈاکوؤں کو پکڑنے کیلئے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل
بلوچستان پولیس کے اعلیٰ حکام نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے سرگرم ہے۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس نیوز کو بتایا ہے کہ یہ واردات مقامی جرائم پیشہ گروہوں یا علیحدگی پسند عناصر کی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن کسی گروہ نے ابھی تک ذمہ داری قبول نہیں کی۔
بینک حکام نے اپنے ملازمین کی حفاظت اور نقدی کی منتقلی کے عمل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے اضافی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب یہ واقعہ گوادر پورٹ کی معاشی سرگرمیوں کے لیے اہم شاہراہ پر پیش آیا جو خطے کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہے۔ مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی وارداتیں علاقے میں سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
لیویز حکام نے بتایا کہ تحقیقات مکمل ہونے پر مزید تفصیلات سامنے آئیں گی اور شہریوں سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری دیں۔