Express News:
2025-11-04@05:26:04 GMT

جدید سیاست میں خواتین کی رول ماڈل

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

آزادی کے فوراً بعد بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے سیاستدانوں اور سول سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نیا ملک بہت اچھے طریقے سے چلانے کے لیے آپ کے کچھ رول ماڈل ہونے چاہیئیں جن کی طرزِ حکمرانی کی آپ پیروی کریں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس سلسلے میں کسی ہندو حکمران کا نام پیش نہیں کرسکتا۔

تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد میں جن دو حکمرانوں کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں، وہ دونوں مسلمان حکمران تھے۔ ایک کا نام ابوبکر اور دوسرے کا نام عمر تھا۔ انھوں نے ایک بڑی سلطنت کے حکمران بن کر بھی جس طرح کا سادہ طرزِ زندگی اپنایا اور سرکاری فنڈز کو جس طرح امانت سمجھ کر خرچ کیا وہ آپ کے لیے ایک بہترین مثال ہے اور انھیں رول ماڈل سمجھ کر ان کی پیروی کی جانی چاہیے۔‘‘

بڑے دکھ کے ساتھ یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ آج کے جدید دور میں ہم کسی بھی مسلم حکمران کو رول ماڈل کے طور پر پیش نہیں کرسکتے، دوسرے مسلم ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص خواتین بڑی تعداد میں میدانِ سیاست میں اتری ہیں۔ اُن کے لیے اگر رول ماڈل ڈھونڈنی ہوں تو مسلم دنیا سے ملنا محال ہے کیونکہ رول ماڈل کے لیے جن دو بنیادی اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے یعنی سادگی اور ایمانداری، وہ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں ناپید ہیں۔

اگر کسی مسلم خاتون کو موجودہ دور کی پاکستانی خواتین سیاستدانوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ہیں جو یقینی طور پر ایمانداری اور سادگی کا مجسّمہ تھیں اور جب قوم نے انھیں ایّوبی آمریّت سے نجات دلانے کے لیے پکارا تو انھوں نے آگے بڑھ کو آمریّت کو پوری جرأت کے ساتھ للکارا۔ مگر انھیں صدارتی الیکشن میں ریاستی مشینری کے ذریعے ہروادیا گیا تھا، اس لیے انھیں اقتدار نہ مل سکا اور قوم ان کی طرزِ حکمرانی دیکھنے سے محروم رہی۔ جدید دور میں جن دو خواتین حکمرانوں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، وہ دونوں غیر مسلم ہیں۔ ایک یورپ کے سب سے امیر ملک جرمنی کی سولہ سال تک حکمران رہیں اور دوسری ہندوستان کے صوبے بنگال کی تیسری دفعہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئی ہیں۔ دونوں کے سیاسی حریف بھی ان کی ایمانداری کے معترف ہیں جب کہ دونوں کی سادگی ضرب المثل ہے۔

سولہ سال تک جرمنی کی چانسلر رہنے والی انجیلا مرکل نے زندگی کا طویل عرصہ ایسٹ جرمنی میں گذارا۔ انھوں نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور کافی عرصے تک تدریس سے وابستہ رہیں۔ 1989میں وہ کرسچین ڈیموکریٹیک پارٹی میں شامل ہوکر میدانِ سیاست میں داخل ہوئیں اور سولہ سال بعد 2005میں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہوگئیں۔ انھوں نے چار انتخاب جیتے اور سولہ سال تک جرمنی کے سب سے بااختیار عہدے پر براجمان رہیں۔ چانسلر مرکل یورپ کے امیر ترین ملک کی طاقتور ترین حکمران ہونے کے باوجود نمودونمائش، پروٹوکول اور مہنگے ملبوسات سے دور رہیں۔

وہ بڑے عرصے تک ایک ہی کوٹ پہنتی رہیں۔ ایک بار ایک خاتون صحافی نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’کیا وجہ ہے آپ ایک ہی کوٹ میں نظر آتی ہیں؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا ’’میں ایک سیاستدان ہوں کوئی ماڈل نہیں ہوں کہ ہر روز نئے اور مہنگے کپڑے پہنوں‘‘ یہ جواب دے کر انھوں نے نہ صرف میڈیا کا منہ بند کردیا بلکہ سادگی اور سادہ لباس کو سیاست اور قیادت کا بنیادی وصف قرار دے دیا۔ چانسلر مرکل اقتدار میں آنے سے پہلے جس عام سے فلیٹ میں رہتی تھیں، آج بھی اسی فلیٹ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بذریعہ اقتدار نہ جائیدادیں بنائی ہیں، نہ ملیں لگائی ہیں نہ کسی اور ملک کے بینک میں پیسہ بھیجا ہے، نہ مہنگی گاڑیاں خریدی ہیں، نہ عزیز واقرباء کو عہدے دے کر نوازا ہے، نہ ہی کسی  سرمایہ دار سے نیا بنگلہ تعمیر کرایا۔ وہ کھانا بھی خود پکاتی ہیں اور کپڑے بھی خود دھوتی ہیں اور گھر کے لیے سودا سلف (گروسری) بھی خود لاتی ہیں۔ تو ہوئی ناں وہ جدید دور کی تمام سیاستدانوں کے لیے رول ماڈل۔

دوسری رول ماڈل ممتا بیزجی ہیں جنھوں نے تیسری بار مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ یہ بھارت کی تاریخ میں 15سال مسلسل وزیراعلیٰ رہنے والی پہلی سیاست دان ہوں گی۔ ممتا جی انڈیا کی طاقتور ترین اور دنیا کی سو بااثر ترین خواتین میں بھی شامل ہیں اور یہ دنیا کی واحد سیاست دان ہیں جو سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ گیت نگار، موسیقار، ادیب اور مصوّرہ بھی ہیں۔ یہ کئی کتابوں کی مصنّفہ اور بہت سی بیسٹ سیلر پینٹنگز کی مصوّرہ بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ممتاجی ہندوستان کی پہلی سیاست دان ہیں جنھوں نے سادگی اور غریبانہ طرزِ زندگی کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کو شکست دے دی۔ یہ بنگال میں دیدی کہلاتی ہیں اورجدید دور میں خواتین سیاستدانوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔

 ممتا بینر جی 1955 میں کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ والد چھوٹے سے سیاسی ورکر تھے۔ والدہ ہاؤس وائف تھیں۔ یہ چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ ممتا کالج پہنچیں تو اسلامی تاریخ سے متعارف ہوئیں اور آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات میں اترتی چلی گئیں۔ یہ اکثر اپنے آپ سے سوال کیا کرتی تھیں۔ حجاز جیسے جاہل معاشرے میں ایک شخص نے انقلاب کیسے برپا کر دیا؟ انقلاب کے قائد حضرت محمدؐ 53سال کی عمر میں مکہ سے ہجرت کر گئے اور 10سال بعد یہ نہ صرف پورے حجاز کے مالک تھے بلکہ ان کے پیروکار دنیا کی دونوں سپرپاورز کے دروازے پر دستک بھی دے رہے تھے۔

آخر ان لوگوں میں کیا کمال، کیا خوبی تھی؟یہ جواب تلاش کرنا شروع کیا تو پتا چلا کہ وہ ایمانداری ور تکبّر سے پاک سادگی کے اعلیٰ نمونے تھے۔ یہ لوگ مال و متاع، عیش و آرام اور نمود و نمائش سے بالاتر تھے اور کردار کی یہ خوبیاں انسانوں کو عظیم بنا دیتی ہیں۔ ممتا بینرجی نے یہی خوبیاں اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سادگی کو اپنا ہتھیار اور زیور بنا لیا اور پھر دنیا نے یہ معجزہ بھی دیکھ لیا کہ اس نے بنگال کی طاقتور ترین پارٹیوں کو پچھاڑدیا۔

 یہ 15سال کی عمر میں اسٹوڈنٹ لیڈر بنیں۔ اسلامک ہسٹری، ایجوکیشن اور قانون میں ڈگریاں لیں۔ سیاست میں آئیں اور 29سال کی عمر میں سی پی آئی ایم پارٹی کے لیڈر سومناتھ چیٹر جی کو ہرا کر پورے ہندوستان کو حیران کر دیا۔ وہ چھ بار اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ تین بار وفاقی وزیر بنیں اور پھر 2011 میں استعفیٰ دے کر صوبے کا الیکشن لڑا اور بنگال کی چیف منسٹر بن گئیں، 2021 میں وہ تیسری بار منتخب ہو گئیں۔ ممتا جی سے پہلے مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی 34 سال حکمران رہی۔ ملک کی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت بھی کمیونسٹ پارٹی کا مقابلہ نہ کر سکی۔ مگر دیدی آئیں اور اسے ناک آؤٹ کردیا۔یہ مسلمانوں میں بھی بہت پاپولر ہیں۔ بنگال کے 30فیصد ووٹرزمسلمان ہیں اور سب انھیں ووٹ دیتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتی ہیں۔ نریندر مودی اُن کی مسلم دوستی کو ’’دشمن سے محبت‘‘ قرار دیتے ہیں اور انھیں طنزاً بیگم کہتے ہیں۔ بی جے پی نے 2021 کے الیکشن میں ممتا بینر جی کو ہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ لیکن اس کے باوجود صرف 77 سیٹیں حاصل کر سکی جب کہ ممتا بینرجی نے 213 سیٹیں لیں۔ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں۔ ممتا بینرجی نے یہ کمال کیا کیسے؟ ان کے پاس کون سی طاقت ہے؟ اُن کے پاس ان کی سادگی کی طاقت ہے۔

وہ گیارہ سال سے 10کروڑ لوگوں کے صوبے کی حکمران ہیں۔ مگر وہ کبھی چیف منسٹر ہاؤس میں نہیں رہیں۔ کولکتہ کی ہریش چیٹرجی اسٹریٹ میں ان کا دو کمرے کا چھوٹا سا مکان ہے۔ وہ اس میں رہتی ہیں اور گھر میں کوئی ملازم بھی نہیں۔ وہ تین بار وفاقی وزیر اور دو بار چیف منسٹر رہیں۔ اس حیثیت سے انھیں دو لاکھ روپے پنشن ملتی ہے۔ آج تک انھوں نے یہ پنشن نہیں لی۔ انھوں نے آج تک وزیراعلیٰ کی تنخواہ بھی وصول نہیں کی۔ اپنے سارے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتی ہیں اور چائے بھی سرکاری نہیں پیتیں۔ لیکن سوال یہ ہے ان کی ذاتی جیب میں پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ان کی کتابوں اور کیسٹوں کی رائلٹی ہے۔ یہ 87 کتابوں کی مصنّفہ ہیں، جن میں سے کئی کتابیں بیسٹ سیلر ہیں۔ ان کی کیسٹس بھی بکتی ہیں۔

یوں انھیں سالانہ پانچ سات لاکھ روپے مل جاتے ہیں اور یہ ان سے اپنے تمام اخراجات پورے کر لیتی ہیں۔ ان کی پینٹنگز بھی بکتی ہیں مگر یہ رقم وہ چیریٹی میں دے دیتی ہیں۔ دوروں کے دوران ٹی اے ڈی اے بھی نہیں لیتیں اور ریسٹ ہاؤسز کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کرتی ہیں۔ اکانومی کلاس میں سفر کرتی ہیں۔ ہمیشہ سستی سی سفید ساڑھی اور ہوائی چپل پہنتی ہیں۔ کسی شخص نے آج تک انھیں رنگین قیمتی ساڑھی اور سینڈل میں نہیں دیکھا۔ میک اپ بالکل نہیں کرتیں۔ زیور نہیں پہنتیں۔ سرکاری گاڑی بھی صرف سرکاری کاموں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نہیں نلکے کا پانی پیتی ہیں۔ گھر کا فرنیچر بھی انتہائی پرانا اور سستا ہے۔

ممتاجی اگر سڑک پر چل رہی ہوں تو کوئی یہ اندازہ نہیں کر سکتا، ترکاری کا تھیلا اٹھا کر چلنے والی یہ خاتون 10کروڑ لوگوں کی وزیراعلیٰ ہیں۔ دنیا نے انھیں موسٹ پاور فل ویمن کی لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور یہ انڈیا کی آئرن لیڈی اور جمہور کی دیوی کہلاتی ہیں۔ ہماری خواتین وزیروں اور ممبرانِ اسمبلی کے لیے بلاشبہ انجیلا مرکل اور ممتابیزجی رول ماڈل کی حیثیّت رکھتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاست دان سیاست میں سولہ سال کرتی ہیں رول ماڈل بنگال کی انھوں نے کے لیے ا نہیں کر ہیں اور

پڑھیں:

پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز

 لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تْرک نَخباؤر نے ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تْرک نَخباؤر کا پرتپاک و پر خلوص خیرمقدم کیا۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، پارلیمانی تعاون، وویمن ایمپاورمنٹ، تعلیم، یوتھ ایکسچینج پروگرام، ماحولیات اور کلین انرجی کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے جرمنی کی جانب سے حالیہ سیلاب کے دوران اظہارِ یکجہتی پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہا کہ پنجاب کے تاریخی اور ثقافتی دل لاہور میں جرمنی کے معزز مہمانوں کا خیرمقدم کرنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے جرمنی کی فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی 100 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی اور پاکستان میں 35 سالہ خدمات کو سراہا۔ وزیراعلی مریم نواز شریف نے کہا کہ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن نے پاکستان اور جرمنی میں جمہوریت، سماجی انصاف اور باہمی مکالمے کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فلڈ کے دوران اظہار ہمدردی و یکجہتی پاک جرمن دیرینہ دوستی کی عکاسی ہے۔ پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں جو ترقی و امن کی بنیاد ہیں۔ جرمن پارلیمانی رکن دِریا تْرک نَخباؤر سے ملاقات باعث مسرت ہے۔ وزیراعلی مریم نواز نے کہا کہ جرمن پارلیمانی رکن دِریا تْرک نَخباؤر کا کام شمولیتی پالیسی سازی، صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے فروغ کی شاندار مثال ہے۔ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی جمہوری گورننس کے تحت قانون سازوں، نوجوان رہنماؤں اور خواتین ارکانِ اسمبلی کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ پنجاب اور جرمن پارلیمان کے تبادلوں سے وفاقی تعاون اور مقامی خودمختاری کے جرمن ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ پارلیمانی تعاون عوامی اعتماد اور باہمی تفہیم کا پْل ہے جو پاک جرمن تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ جرمنی 1951 سے پاکستان کا قابل اعتماد ترقیاتی شراکت دار رہا ہے۔ جرمن تعاون نے پنجاب میں ماحولیات، ٹریننگ، توانائی، صحت اور خواتین کے معاشی کردار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے نوجوانوں کی روزگاری صلاحیت میں اضافے کے لیے جرمنی کے ڈوال ووکشینل ٹریننگ ماڈل کو اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت 2024 میں 3.6 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنا خوش آئند ہے۔ پنجاب جرمنی کی ری نیو ایبل انرجی، زرعی ٹیکنالوجی، آئی ٹی سروسز اور کاین مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہے۔ تعلیم حکومت پنجاب کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے۔ پنجاب نصاب کی جدت، ڈیجیٹل لرننگ اور عالمی تحقیقی روابط کے فروغ پر کام کر رہا ہے۔ دس ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ جرمن جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ خواتین کی بااختیاری پنجاب کی سماجی پالیسی کا مرکزی جزو ہے۔ ای بائیک سکیم، ہونہار سکالرشپ پروگرام اور ویمن اینکلیوز خواتین کی محفوظ اور باعزت معاشی شرکت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پنجاب کے تاریخی ورثے بادشاہی مسجد، لاہور قلعہ، شالامار گارڈن اور داتا دربار مشترکہ تہذیبی سرمائے کی علامت ہیں۔ ثقافتی تعاون مؤثر سفارتکاری ہے، جرمن اداروں کے ساتھ مشترکہ فن و ثقافت منصوبوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پاکستان اور جرمنی امن، ترقی اور  انسانی وقار کی مشترکہ اقدار کے حامل ہیں۔ پارلیمانی روابط، پائیدار ترقی اور تعاون کے ذریعے پاک جرمن دوستی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ جبکہ صوبہ بھر میں وال چاکنگ پر سختی سے پابندی پر عملدرآمد یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بے ہنگم تجاوزات کو خوبصورتی میں ڈھالنے اور وال چاکنگ ختم کرکے دیواریں صاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے پراجیکٹ کی منظوری دے دی۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر شہر میں بیوٹیفکیشن کا شاندار اور منفرد پلان مرتب کیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں سرکاری اور نجی عمارتوں پر وال چاکنگ ختم کرکے دیواریں صاف کردی جائیں گی۔ پنجاب کے 39اضلاع میں ساڑھے16ارب روپے کی لاگت سے 132بیوٹیفکیشن سکیمیں مکمل کی جائیں گی۔ بیوٹیفکیشن کی 122سکیموں پر کام شروع کردیا گیا۔ لاہور، بہاولپور، ڈی جی خان، سرگودھا، گجرات، فیصل آباد اور راولپنڈی میں بیوٹیفکیشن سکیمیں اگلے جون تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے۔ ملتان میں نومبر، گوجرانوالہ میں دسمبر کے آخر تک سکیمیں مکمل کرنے کی مدت مقررکی گئی ہے۔ ساہیوال میں بیوٹیفکیشن کی 24سکیمیں اگلے مارچ تک مکمل کر لی جائیں گی۔ ہر شہر میں سڑکوں اور بازاروں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ٹف ٹائل بھی لگائی جائیں گی۔ مرکزی بازاروں کو خوش نما اور جاذب نظر بنانے کے لئے اپ لفٹنگ اور بیوٹیفکیشن کی جائے گی۔ مختلف شہر وں میں قدیمی دروازوں، روایتی بازاروں کو ری ماڈلنگ کے ذریعے خوبصورت شکل دی جائے گی۔ وزیراعلی مریم نواز نے گلگت بلتستان کے یوم الحاق پاکستان پر مبارکباد کا پیغام دیا اور گلگت بلتستان کے عوام کو ڈوگرہ راج سے آزادی کے یوم پر مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ گلگت بلتستان پاکستان کی خوبصورت اور شاندار تصویر پیش کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے بہادر عوام ملک و قوم کا فخر ہیں۔ گلگت بلتستان کی بے مثال روایات اور شاندار ثقافت سیاحوں کو مسحور کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • تحریک انصاف کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کے قبضے کا ماڈل دہرا رہا ہے، آل پارٹیز حریت کانفرنس