آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL) نے سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار میں ٹی اے وائی بلاک کے تحت چاکر-1 ایکسپلوریٹری کنویں میں تیل کے نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔

یہ بلاک OGDCL کے 95 فیصد آپریٹر شیئر اور گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ (GHPL) کے 5 فیصد حصہ داری کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے تحت کام کر رہا ہے۔

OGDCL کے اعلامیے کے مطابق چاکر-1 کی کھدائی 2 جون 2025 کو شروع کی گئی اور یہ 1926 میٹر کی گہرائی تک کی گئی، جس کا مقصد ’لوئر گورو فارمیشن‘ کی اپر شیل میں تیل کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔

اعلان پر مشتمل لیٹر کا عکس

کمپنی کا کہنا ہے کہ ڈرل اسٹیم ٹیسٹ (DST) اور الیکٹریکل سبمرسبل پمپ (ESP) کے ذریعے کیے گئے ٹیسٹ کے دوران کنویں سے 275 بیرل یومیہ تیل کے بہاؤ کی تصدیق ہوئی، جو 32/64” چوک اور 400 psi ویل ہیڈ فلوئنگ پریشر پر حاصل کیا گیا۔

مزید امکانات کی جانچ جاری

مزید یہ کہ ’لوئر رانی کوٹ فارمیشن‘ میں بھی تیل کی موجودگی کی نشان دہی ہوئی ہے، جس پر دوسرا DST/ESP ٹیسٹ جاری ہے تاکہ مزید ہائیڈروکاربن ذخائر کی جانچ کی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں تیل کے کتنے ذخائر، تیل نکلنے کا تناسب کیا ہوگا؟

OGDCL کے مطابق، یہ دریافت TAY بلاک میں کمپنی کی 13ویں کامیاب دریافت ہے، جو مشترکہ منصوبے کی کوششوں اور علاقے کے وسائل کی تلاش کی مسلسل جدوجہد کو ظاہر کرتی ہے۔

 کمپنی کا ماننا ہے کہ یہ نتائج علاقے کی جیالوجیکل ممکنات پر اعتماد میں اضافہ کریں گے اور مزید تلاش و تحقیق کے لیے بنیاد فراہم کریں گے۔

یہ اطلاع PSX قوانین کی دفعہ 5.

6.1(a) اور سیکورٹیز ایکٹ 2015 کی دفعہ 96 کے تحت اسٹاک ایکسچینج کو باضابطہ طور پر فراہم کی گئی ہے تاکہ حصص یافتگان اور دیگر متعلقہ فریقوں کو باخبر رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

OGDCL او جی ڈی سی ٹنڈوالٰہ یار سندھ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: او جی ڈی سی میں تیل کے

پڑھیں:

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا حکومت سندھ سے مزید سمندری محفوظ علاقے قائم کرنے کا مطالبہ

لاہور:

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان نے حکومت سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے ساحلی علاقوں میں مزید میرین پروٹیکٹڈ ایریاز (ایم پی ایز) یعنی سمندری محفوظ علاقے قائم کرے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ پٹیانی اور ڈبّو کریک جیسے علاقوں کو ایم پی اے قرار دینے سے سندھ کے ساحلی علاقوں کی حیاتیاتی تنوع اور مینگرووز کے قیمتی جنگلات کو بچایا جا سکتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے یہ مطالبہ یکم اگست کو منائے جانے والے ورلڈ میرین پروٹیکٹڈ ایریاز ڈے کے موقع پر کیا۔

ادارے کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں تین سمندری محفوظ علاقے قائم کیے جا چکے ہیں، جن میں بلوچستان کے علاقے ’’میانی ہور‘‘ کو حال ہی میں 29 جولائی 2025 کو ایم پی اے قرار دیا گیا ہے، جبکہ اس سے پہلے چُرنا آئی لینڈ (2024) اور آستو لا آئی لینڈ (2017) کو ایم پی ایز کا درجہ دیا جا چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر کیے گئے حیاتیاتی تحفظ کے وعدوں کی تکمیل کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستان حیاتیاتی تنوع سے متعلق عالمی کنونشن کا رکن ہے اور کُن منگ-مونٹریال گلوبل بایوڈائیورسٹی فریم ورک کے تحت ہر ملک پر لازم ہے کہ وہ 2030 تک اپنے 30 فیصد سمندری رقبے کو محفوظ علاقہ قرار دے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے ایم پی ایز کے قیام میں حکومت، ماہرین اور مقامی ماہی گیر برادری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کو حد سے زیادہ مچھلی کے شکار، خطرناک جالوں کے استعمال، آلودہ پانی کے اخراج، پلاسٹک و دیگر کوڑا کرکٹ، رہائش گاہوں کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ان کے بقول، ’’ایم پی ایز کا قیام ان مسائل کا واحد مؤثر حل ہو سکتا ہے۔‘‘

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ ایم پی ایز کے قیام سے سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ممکن ہوگا اور ساحلی کمیونٹیز کو ایکو ٹورازم کے ذریعے متبادل روزگار میسر آ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میانی ہور میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دو دہائیاں قبل ڈولفن دیکھنے، ریت کے ٹیلوں کی سیر، پرندوں کی نگرانی اور کھیلوں کے لیے ماہی گیری جیسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا جو اب مقامی برادری کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں۔

مزید برآں، 22 جولائی 2025 کو پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بائیوڈائیورسٹی بیونڈ نیشنل جیو رسڈکشن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، جو اقوام متحدہ کے قانون برائے سمندری حدود کا حصہ ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال کے لیے ایک عالمی قانونی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی زون سے باہر بھی ایک آف شور ایم پی اے کے قیام پر غور کرے تاکہ غیر منظم ماہی گیری سے متاثرہ سمندری وسائل کا تحفظ کیا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈبلیو ڈبلیو ایف کا حکومت سندھ سے مزید سمندری محفوظ علاقے قائم کرنے کا مطالبہ
  • ملکی توانائی ذخائر میں اضافہ، سندھ سے بڑی خوشخبری
  • سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار سے تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت
  • اوجی ڈی سی ایل کا ٹنڈو اللہ یار کے چاکر-1 ایکسپلوریٹری ویل سے تیل کی دریافت کا اعلان
  •  سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار میں تیل کا نیا ذخیرہ دریافت
  • سندھ میں تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت 
  • شہباز شریف کی دعوت، ایرانی صدر مسعود پزشکیان اتوار کو پاکستان آئیں گے
  • حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کا تین روزہ سالانہ عرس 13تا15 اگست کو ہوگا،ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار افتتاح کریں گے
  • سندھ میں کم از کم ماہانہ اُجرت 40 ہزار روپے مقرر، نوٹیفکیشن جاری