مائیکل جیکسن کا پرانا اور داغدار موزا ہزاروں ڈالرز میں نیلام
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
پاپ میوزک کے شہنشاہ اور کروڑوں مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والے مائیکل جیکسن کا پرانا اور داغدار موزا ہزاروں ڈالرز میں نیلام کردیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس میں 30 جولائی 2025 کو ایک نیلامی کے دوران مائیکل جیکسن کا پہنا ہوا جراب تقریباً €7,688 یعنی $8,822 امریکی ڈالر جس کی قیمت پاکستانی روپے کے لحاظ سے ڈھائی لاکھ سے زائد بنتی ہے، میں فروخت ہوا ہے۔
یہ سفید ایتھلیٹک موزا نگینوں سے مزین ہے اور وقت گزرنے کے باعث پیلاہٹ اور مائیکل جیکسن کے پہننے کے بعد ان کے پیسینے اور کمرے میں موجود دھول لگنے سے داغدار ہوگیا تھا، آنجہانی گلوکار نے 1997 میں فرانس کے شہر نیم میں اپنے کنسرٹ کے دوران پہنا تھا۔
نیلامی سے قبل اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ موزا €3,000 سے €4,000 (یعنی 3,400 سے 4,500 امریکی ڈالرز) میں فروخت ہوگا، مگر مداحوں اور نوادرات جمع کرنے والوں کی غیر معمولی دلچسپی کے باعث یہ قیمت توقعات سے کئی زیادہ رہی۔
View this post on InstagramA post shared by Viral Bhayani (@viralbhayani)
یہ موزا ایک اسٹیج ٹیکنیشن کو جیکسن کے ڈریسنگ روم میں زمین پر پڑا ہوا ملا تھا جو HIStory ورلڈ ٹور کے دوران انجام دی گئی پرفارمنس کے بعد سے وہاں موجود تھا۔
ٹیکنیشن جو کہ مائیکل جیکسن کا مداح تھا، نے یہ موزا اپنے بیک اسٹیج پاس کے ساتھ دہائیوں تک محفوظ رکھا۔ نیلامی کے منتظمین نے اس یادگار کو "غیر معمولی" اور مائیکل جیکسن کے مداحوں کے لیے ایک "ثقافتی علامت" قرار دیا، جو ان کی مقبولیت اور یادگار اشیاء کی قدر کو ظاہر کرتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مائیکل جیکسن کا
پڑھیں:
موسیقی کے عظیم معمار خواجہ خورشید انور کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے
موسیقی کے عظیم معمار خواجہ خورشید انور کی آج 41ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔
برصغیر کے عظیم موسیقار، ہدایت کار اور فلسفی خواجہ خورشید انور کی آج 41ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ 21 مارچ 1912 کو میانوالی میں پیدا ہونے والے اس نابغۂ روزگار فنکار نے فلمی دنیا کو کوئل، جھومر، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا جیسے لازوال شاہکار دیے۔
ملکہ ترنم نورجہاں، زبیدہ خانم اور مہدی حسن سمیت کئی نامور گلوکاروں نے ان کی دھنوں پر اپنی آواز کا جادو جگایا۔ خواجہ خورشید انور نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود انقلابی نظریات کے باعث نوکری ترک کر دی۔
انہیں 1955 میں فلم انتظار پر بہترین موسیقار اور فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا، جبکہ نگار ایوارڈز اور ستارۂ امتیاز بھی ان کے اعزازات میں شامل ہیں۔ 30 اکتوبر 1984 کو وفات پانے والے خواجہ خورشید انور آج بھی اپنی لازوال موسیقی کے باعث مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔