بینظیر نشوونما پروگرام: شمولیت کیلئے اہلیت کی شرائط اور اندراج کا طریقہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اگر آپ بھی بچے کی اچھی جسمانی و ذہنی صحت کیلیے بینظیر نشوونما پروگرام میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو شمولیت کیلیے اہلیت کی شرائط اور اندراج کا طریقہ جان لیں۔
بینظیر نشوونما پروگرام سے استفادہ حاصل کرنے کیلیے خواتین کو بی آئی ایس پی کفالت پروگرام میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہونا چاہیے اور رجسٹریشن کی درج ذیل شرائط پر پورا اترنا ہوگا:
حاملہ خواتین
دودھ پلانے والی مائیں
بچے کی عمر 2 سال سے کم (0 سے 23 ماہ)
پروگرام میں شمولیت کے اندراج کا طریقہ:
پروگرام میں رجسٹریشن کروانے کیلیے تحصیل ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرز اسپتال میں نشوونما مرکز قائم کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ اوپر دی گئی تمام شرائط پر پورا اترتی ہیں تو نشوونما مرکز تشریف لائیں۔
پروگرام میں اندراج کیلیے مندرجہ ذیل دستاویزات کا ہونا ضروری ہے:
خواتین کا نادرا سے جاری کردہ شناختی کارڈ
بچے کا نادرا سے جاری کردہ بے فارم
بچے کا حفاظتی ٹیکوں کا کارڈ
پروگرام میں شمولیت پر ملنے والی معاونت:
حاملہ خواتین کو دوران حمل ہر سہ ماہی 2500 روپے کی رقم دی جائے گی۔ بیٹے کی پیدائش کی صورت میں 2500 روپے اور بیٹی ہونے کی صورت میں 3000 سہ ماہی ( بشمول 500 روپے سفری اخراجات ) ادا کیے جائیں گے جب تک کہ بچے کی عمر 2 سال ہو جائے۔
یہ رقم بی آئی ایس پی کفالت پروگرام کی رقم کے علاوہ ملے گی۔ حاملہ دودھ پلانے والی مائیں اور 2 سال سے کم عمر بچوں کو خصوصی غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کی جائے گی تاکہ ان کی نشوونما بہتر ہو سکے۔
اہم نوٹ:
قومی غذائی سروے 2018 کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 40 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے مکمل جسمانی و ذہنی نشو و نما حاصل نہیں کر پاتے اور ان کا قد عمر کے لحاظ سے کم رہ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ تقریباً 18 فیصد بچے 5 سال کی عمر سے کم ہیں ان کا وزن اپنی عمر کے لحاظ سے کم رہ جاتا ہے۔
اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین میں بھی مختلف اقسام کی غذائی کمی پائی جاتی ہے۔ بچے کی زندگی کے پہلے 1000 دنوں (حمل ٹھہرنے سے لے کر بچے کی دو سال کی عمر تک) تعاون سے حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں اور 2 سال سے کم عمر بچوں کیلیے بہتر صحت کا پروگرام ’نشو و نما‘ شروع کیا ہے۔
ملنے والی مناسب خوراک ذہنی و جسمانی نشو و نما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دودھ پلانے والی پروگرام میں سال سے کم کی عمر بچے کی
پڑھیں:
پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
اسلام آباد:ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔
چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔
ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔
گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔
بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔
اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔
جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔
خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔