Juraat:
2025-11-02@18:03:51 GMT

بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ

ریاض احمدچودھری

مودی حکومت کی پالیسیاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ چھیڑ رہی ہیں اوریہ پالیسیاںان کی زندگیوں، حقوق اور آزادیوں کے لئے خطرہ ہیں۔بین الاقوامی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے سے نہ صرف اس کی جمہوریت بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی تاکہ بھارت کو ہندو انتہا پسندی پر مبنی فسطائی ریاست بننے سے روکا جاسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے سے مراد بھارت کے سیاسی، سماجی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی نظریاتی تبدیلی کو ہندوتوا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کی صورت حال کے حوالے سے انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر روی نائرکاکہنا ہے کہ یوں تو مودی حکومت اور ہندوتوا کی طاقتوں نے جو خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے اس سے تمام ہی اقلیتی فرقے خوف زدہ ہیں لیکن مسلمانوں کی صورت حال کچھ زیادہ خراب ہے۔ حکومت بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں کررہی ہے۔ این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین اسی لیے لائے گئے ہیں۔ اترپردیش میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون اسی سلسلے کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔مودی حکومت نے مسلمانوں کے بارے میں تو یہ طے کردیا ہے کہ وہ ملک کے اندر ملک کے دشمن ہیں اور انہیں دوسرے درجے کی شہریت تسلیم کرنی ہوگی ورنہ انہیں حکومت اور حکومت کے حامیوں کی طرف سے مزید مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے مسیحیوں کو بھی پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔ مسیحی تنظیموں کو غیر ملکی مالی امداد سے متعلق قانون (ایف سی آر اے) اور تبدیلی مذہب کے نام پر پریشان کیا جارہا ہے۔ مسیحی مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں کافی خوف کی فضا ہے۔ایف سی آر اے قانون میں ترمیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نئے قانون کی آڑ میں ترقی پسند اور غیر سرکاری تنظیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم اداکاروں، انسانی حقوق کے وکلاء ، سماجی کارکنوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں، دانشوروں اور جو بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان پر حملے کیے گئے۔ انسانی حقوق کے کارکن، پابندی، تشدد، ہتک عزتی اور استحصال کا سامنا کر رہے ہیں۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کوبھارت میں دو محاذ پر کوشش کرنا ہوگی۔ ایک تو آئینی طریقے سے اپنا حق لینے کے لیے جدوجہد کریں اور دوسرے ستیہ گرہ یعنی پر امن تحریک کا راستہ اپنائیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر معاملے میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں لیکن جو اہم معاملات ہوں ان پر غور و خوض کرنے اور ماہرین قانون کے مشورے کے بعد عدالت سے ضرور رجوع کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ستیہ گرہ ہونی چاہیے۔جس طرح کسان اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہیں اسی طرح مسلمانوں کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنا چاہیے تھا۔ انہیں کورنا وائرس کے چکر میں آکر اپنی تحریک ختم نہیں کرنی چاہیے تھی۔
بھارت کے سابق ہوم سیکرٹری گوپال پلئی نے مودی سرکار کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت ملک میں فرقہ وارانہ بیانیے کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ کرن تھاپر کی جانب سے پروگرام میں سوال کیا گیا کہ سرعام کہا جاتا ہے کہ گولی مارو سالوں کو تو ایسے لوگوں کو ہٹانے کے بجائے ان کو ترقی دیدی جاتی ہے؟سابق ہوم سیکرٹری گوپال پلئی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو ترقی دینے سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ نفرت انگیز بات کریں گے تو حکومت کی حمایت آپ کے ساتھ ہو گی۔وزیراعظم مودی نے آئینی حلف کی روح کو پامال کیا۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ ریاستی سرپرستی میں جاری ہے۔ جو ہندو اس وقت بھارت کے حالات پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں وہ دراصل بھارت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس طرح کے منفی کام بھارت میں مذہبی تفریق، داخلی انتشار کو جنم دے سکتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک بھارت کی جمہوریت کے لیے چیلنج ہے۔
وزیراعظم مودی کا طرزِ عمل ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ملک کا اتحاد مذہبی رواداری سے مشروط ہے۔ کوئی بھی ملک جہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوں، ترقی نہیں کر سکتا اور اگر تبدیلی نہ لائی گئی تو موجودہ حکومت کو تاریخ ایک تاریک باب کے طور پر یاد رکھے گی۔بھارتی سابق ہوم سیکرٹری کے خیالات ثابت کرتے ہیں کہ بھارت کا سیکولر ملک ہونے کا دعوی جھوٹا ہے۔ یہ باتیں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی حکومت میں اداروں کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی ایک خطرناک مہم جاری ہے۔ہندوتوا کے نظریے کو منظم طریقے سے مسلط کرنے سے ملک کا سیاسی اور سماجی تانا بانا تبدیل ہورہا ہے جس سے مذہبی اقلیتیں تیزی سے پسماندہ اور کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ہندوتوانے بھارت کی عدلیہ اور مسلح افواج تک اپنی رسائی کو بڑھا دیا ہے جس کے انصاف اور جمہوریت کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ بھارتی عدلیہ دائیں بازو کی مودی حکومت کا آلہ کار بن چکی ہے۔ تجزیہ کاروں نے اہم فیصلوں کا حوالہ دیا جن میں حجاب پر پابندی، بابری مسجد کا انہدام اور دفعہ 370کی منسوخی شامل ہے اوران فیصلوںکو ہندوتوا پر مبنی تعصب قرار دیاگیا ہے۔یہ فیصلے مودی حکومت کے ایجنڈے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، ان میںانصاف کو پس پشت ڈالا گیا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کو مجروح کیاگیا ہے۔ہندوتوا کا ایجنڈا اقلیتوں خاص طوپر مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کو مٹا کر ہندو بالادستی کو مسلط کرنا بھی ہے۔ مسلمانوں کے ناموں سے منسوب شہروں اور علامتوں کا نام تبدیل کرنا اور تاریخ کو دوبارہ لکھنا بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے مودی حکومت اقلیتوں کے کو ہندوتوا ہندوتوا کے بھارت میں کہ بھارت بھارت کو کو ہندو کے خلاف کے ساتھ گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

معرکۂ موتہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

موتہ (میم کو پیش اور واو ساکن) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کا نام ہے جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔
یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ وقوع جمادی الاولیٰ 8ھ مطابق اگست یا ستمبر 629ء ہے۔

معرکے کا سبب
اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسولؐ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کر لیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن مار دی۔
یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپؐ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپ نے اس علاقے پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا (زاد المعاد، فتح الباری)۔ اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے سوا کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہو سکا تھا۔

رسولؐ کی وصیت
رسولؐ نے اس لشکر کا سپہ سالار سیدنا زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔ اور فرمایا کہ اگر زید قتل کر دیے جائیں تو جعفر، اور جعفر قتل کر دیے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے (صحیح بخاری)۔

اسلامی لشکر کی پیش رفت
اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصرِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم و جذام، بلقین و بہرا اور بلی (قبائلِ عرب) کے مزید ایک لاکھ افراد بھی جمع ہو گئے ہیں۔

معان میں مجلس شوریٰ
مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہو گئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذرا سا لشکر دو لاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکرا جائے یا کیا کرے؟ مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دو راتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزار دیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسولؐ کو لکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔
لیکن سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرما دیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترا رہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھیے! ہمیں دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہو کر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پا گئی۔

اسلامی لشکر کی پیش قدمی
غرض اسلامی لشکر نے معان میں دو راتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام مَشَارِف تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن مزید قریب آگیا اور مسلمان موتہ کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہوگئے۔ پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی۔ مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ۔

سپہ سالاروں کی شہادت
اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت سخت لڑائی شروع ہو گئی۔ تین ہزار کی نفری دو لاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ عجیب وغریب معرکہ تھا، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن جب ایمان کی بادِ بہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔
سب سے پہلے رسولؐ کے چہیتے سیدنا زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے سوا کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ لڑتے رہے، لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہو کر زمین پر آ رہے۔
اس کے بعد سیدنا جعفرؓ کی باری تھی۔ انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کر دی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ و سیاہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک دشمن کی ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دو بازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دو بازوؤں والا)
اس طرح کی شجاعت و بسالت سے بھرپور جنگ کے بعد جب سیدنا جعفرؓ بھی شہید کر دیے گئے تو اب عبداللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلے کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہوئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کرلو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔

جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں
اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا: مسلمانو! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو، صحابہ نے کہا: آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا: میں یہ کام نہیـں کر سکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا (صحیح بخاری)۔
ادھر رسولؐ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا، اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا، وہ بھی شہید کر دیے گئے، پھر ابنِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کر دیے گئے- اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں- یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا کی (ایضا)۔

خاتمہ جنگ
انتہائی شجاعت و بسالت اور زبردست جاں بازی و جاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
روایات میں بڑا اختلاف ہے کہ اس معرکے کا آخری انجام کیا ہوا۔ تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حالیہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز خالد بن ولیدؓ دن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جس کے ذریعے رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹا لیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کر دیا، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہو گا۔
چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کر دی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن) کو ساقہ (پچھلی لائن) اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکر کا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہو چکی تو خالد بن ولیدؓ نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحرا کی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقے میں واپس چلا گیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اور سلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آ گئے (فتح الباری، زاد المعاد)

فریقین کے مقتولین
اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہو سکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب تنہا خالدؓ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہو گی۔

اس معرکے کا اثر
اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خود کشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دو لاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آ جانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد و منصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِ پیکار رہتے تھے، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ چنانچہ بنو سلیم، اشجع، غطفان، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔
یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی، جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

صفی الرحمن مبارکپوری گلزار

متعلقہ مضامین

  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال
  • معرکۂ موتہ