مسابقتی کمیشن کا 68 ارب روپے کے جرمانے ریکور نہ کرنے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 68 ارب روپے کے عائد کردہ جرمانے ریکور نہ کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
پی اے سی اجلاس نوید قمر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں خزانہ ڈویژن آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا، نوید قمر نے چیئرمین مسابقتی کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ اپنا کام نہیں کرتے، آپکا کام صوبے، عدالتیں اور وفاقی حکومتی کرتی ہیں، آپ نے یہ جرمانے کیوں ریکور نہیں کیے، آپ نے بڑے بڑے کارٹیلز پر ہاتھ نہیں ڈالا۔
نوید قمر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے آپ کچھ نہیں کررہے صرف چھوٹے کاروباروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں، اربوں روپے کے کیسوں میں کروڑوں کے وکیل ہوتے ہیں اور آپ کا ایک ایل ایل بی کا چھوٹا وکیل ہوتا یے۔
نوید قمر نے مسابقتی کمیشن کے چیئرمین سے استفسار کیا کہ ہم آپ کے جوابات سے مطمئن نہیں ہیں، اگر یہی کارکردگی رہی تو ہمارے بچے بھی آئیندہ سالوں میں یہی جوابات سن رہے ہونگے، آپ کے سسٹم میں کچھ اصلاحات ہونی چاہیے،
تین مہینے کے بعد آپ آئیں اور ایک جامع منصوبہ اس کمیٹی کے سامنے رکھیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسابقتی کمیشن نوید قمر
پڑھیں:
پی آئی اے کے خریدار کو 5 برس میں 60 سے 70 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضروت
اسلام آباد:حکومت نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ( پی آئی اے )کے نئے خریدار کو 5 سال کے عرصے میں خسارے میں چلنے والی ایئرلائن میں 70 ارب روپے تک کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی لیکن حتمی سرمایہ کاری کی ضروریات کا اندازہ اگلے ماہ آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کے دستیاب ہونے کے بعد کیا جائے گا۔
نجکاری کمیشن کے سیکریٹری عثمان باجوہ نے کہا کہ نئے سرمایہ کاروں کو 5سالوں میں 60 سے 70 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوگی۔
انھوں نے یہ بیان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس کے دوران دیا ۔اجلاس کی صدارت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے کی۔عثمان باجوہ نے کہا کہ نئی سرمایہ کاری کا مقصد مالیاتی بحالی اور آپریشنل بہتری ہے ۔
عثمان باجوہ نے بتایا کہ پی آئی اے نے برطانیہ کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی اٹھانے کے بعد 14 اگست سے مانچسٹر کے لیے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ پابندی پی آئی اے کے پائلٹس کے جعلی ڈگریوں کے دعوے کے بعد لگائی گئی تھی۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے اجلاس کے بعد کہا کہ جون کے آخر کے آڈٹ شدہ مالیاتی اکاؤنٹس اگلے ماہ کے وسط تک دستیاب ہونے کے بعد ایئر لائنز کی کل سرمایہ کاری کی ضروریات کا اندازہ لگایا جائے گا۔ سرمایہ کار بولی کی رقم کا 85% رقم ایئر لائن میں لگانے کے لیے اپنے پاس رکھے گا۔ حکومت کو بولی کی رقم کا صرف 15 فیصد ملے گا۔
اجلاس میںسیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ پی آئی اے ملازمین کی پنشن 14 ارب 88 کروڑ روپے تک بنتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ 6 ہزار 625 ملازمین کو پی آئی اے پنشن ادائیگی کی جارہی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی افنان اللّٰہ نے کہا کہ کچھ ملازمین ایسے ہیں جن کو 6سے 7ہزار روپے پنشن ملتی ہے کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پینشنرز اور ان کو کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کرلی ۔
نجکاری کمیشن کے حکام نے کہا کہ پی آئی اے کا موجودہ کاروباری ماڈل پائیدار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی بیلنس شیٹ سے 45 ارب روپے کے مزید واجبات نکال کر نئی ہولڈنگ کمپنی میں رکھے جانے کے بعد نجکاری کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان منرلز ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) ابھی تک نجکاری کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
سینیٹر ذیشان خانزادہ نے سوال کیا کہ اس ادارے کی نجکاری کیوں کی جا رہی ہے؟ سینیٹرز نے نجکاری کے فیصلے کی بنیاد پر مزید استفسار کیا کہ وزارت پیٹرولیم کے پاس پی ایم ڈی سی کی نجکاری کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ (زیڈ ٹی بی ایل) کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ ZTB2 اگست 2 کی فیز ون فہرست میں شامل ہے۔ فی الحال مالیاتی مشیر کی خدمات حاصل کرنے کا عمل جاری ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کی سٹنڈنگ کمیٹی برائے کیبنٹ کا اجلاس ہوا جس میں خورشید شاہ کی طرف سے ریگولر کئے گئے ملازمین کے تحفظ کا بل زیر غور آیا۔ اجلاس میں خورشید شاہ نے تجویز دی کہ ریگولر کئے گئے ملازمین کا کیس پارلیمنٹ کو بھیجا جائے اور ریگولر کئے گئے ملازمین کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔اجلاس نے متفقہ طور پر خورشید احمد شاہ کی تجویز سے اتفاق کیا اور بل پارلیمنٹ کو بھیجنے کی منظوری دی۔