توہین مذہب کے نام پر کاروبار معاشرے کیلئے ناسور ہے، علامہ سبطین سبزواری
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
علماء کے وفود سے گفتگو میں مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان کا کہنا تھا کہ کسی کو توہین مذہب کے نام پر گھناونے کاروبار کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جسٹس اعجاز اسحاق خان کے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، کمشن کی تشکیل میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرکے اسے بحال کیا جائے، توہین مذہب کے نام پر کاروبار ازخود بہت بڑی توہین ہے،ریاستی ادارے اور علماء کردار ادا کریں، عدالتی کمشن تمام مقدمات کا جائزہ لے کر انصاف کرے۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے توہین مذہب کے نام پر گھناونے کاروبار کی مذمت کرتے ہوئے اسے معاشرے کیلئے ناسور قرار دیا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز اسحاق خان کے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے فیصلے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کمشن کی تشکیل میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرکے اسے بحال کیا جائے۔ لاہور میں علماء کے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کو کاروبار بنا کر پیش کرنا از خود بہت بڑی توہین ہے۔ اس حوالے سے کئی واقعات پاکستان اور اسلام کی بدنامی کا باعث بنے ہیں، لہٰذا قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ریاست کو ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیں، انتہائی افسوسناک ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کیونکہ کسی کو مذہب کے نام پر گھناونے کاروبار کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کو اس حوالے سے سخت موقف اختیار کرنا چاہیے کہ اس ملک میں کتنے بے گناہوں کو چند جنونیوں کے نعرے لگانے، ذاتی تنازعات، کم فہمی اور ناقص معلومات کی وجہ سے قتل کیا گیا، جن میں کئی بیگناہ متقی لوگ بھی شامل تھے، اس حوالے سے ہمیں ایک ذمہ دار معاشرے کے طورپر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری فیکٹری منیجر کو قتل کیا گیا، کئی مسیحی بستیوں کو جلایا گیا اور پاکستانی خاندانوں کو برباد کیا گیا۔ اس لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا مذہبی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے، تاکہ مذہب کے نام پر پاکستان اور اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔ علامہ سبطین سبزواری کا کہنا تھا کہ عدالتی کمشن تمام مقدمات کا جائزہ لے، جن کیخلاف ٹھوس شہادتیں موجود ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور جن کے خلاف مقدمات جھوٹے ہیں انہیں سزا دینا اسلام کے نظام انصاف کی خلاف ورزی ہوگی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: توہین مذہب کے نام پر کی تشکیل انہوں نے
پڑھیں:
گوٹ بجرانی لغاری کے شہریوں کیخلاف ظلم کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، علامہ مقصود ڈومکی
شہداء کے اہلخانہ سے ملاقات کے موقع پر علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ گاؤں کے مکینوں کی دکانوں پر بلڈوزر چلانا، گھروں کو مسمار کرنا اور معصوم شہریوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دو مہینے گزر جانے کے باوجود گوٹھ بجرانی لغاری کے نہتے عوام کے خلاف پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار کا ظلم و تشدد بدستور جاری ہے۔ افسوس ہے کہ شہداء کے لواحقین کی مسلسل اپیلوں کے باوجود مقتول زاہد لغاری اور عرفان لغاری کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ گاؤں کے متاثرین اور سندھ کے عوام کے مسلسل مطالبے کے باوجود آزادانہ جوڈیشل انکوائری نہیں کرائی گئی۔ بلکہ وہی مجرم وہی منصف کے مصداق وزیر داخلہ نے اپنے ماتحت فرمانبردار پولیس افسران کو انکوائری کے لئے مقرر کیا، جنہوں نے حسب توقع فرمائشی رپورٹ پیش کی۔ یہ بات انہوں نے
گوٹ بجرانی لغاری ضلع نوشہرو فیروز میں شہداء کے وارثان اور مومنین سے ملاقات اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مقصود ڈومکی نے اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار کے مظالم کی شدید مذمت کی۔ وارثان شہداء سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ سے پورے گاؤں کے سینکڑوں باشندوں کی نقل و حرکت کو مشکل کر دیا گیا ہے۔ گاؤں بجرانی لغاری میں کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے، اور بیروزگاری کے باعث لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو درحقیقت خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ اس المیے کی تمام تر ذمہ داری حکومتی طاقت رکھنے والے بااثر عناصر پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوٹ بجرانی لغاری کے پرامن شہریوں کے خلاف ظلم کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ گاؤں کے مکینوں کی دکانوں پر بلڈوزر چلانا، گھروں کو مسمار کرنا اور معصوم شہریوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ قانون بااثر افراد کے سامنے بے بس ہے اور پولیس افسران سیاسی آقاؤں کے ذاتی ملازم بنے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے شہید زاہد حسین لغاری کے بھائی اور شہید عرفان لغاری کی والدہ کو سندھی ثقافتی اجرک کا تحفہ پیش کیا اور کہا کہ ہم ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر ظالم کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں گے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ فوری طور پر شہداء کے ورثاء کی مدعیت میں قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ آزادانہ جوڈیشل انکوائری قائم کی جائے۔ گوٹ بجرانی لغاری کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق بحال کیے جائیں۔ اور گاؤں کے باشندوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں بند کی جائیں۔