دہلی کے ہائی سیکیورٹی زون میں خاتون رکن اسمبلی سے سونے کی چین چھین لی گئی
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
بھارت کے دارالحکومت دہلی کے انتہائی سیکیورٹی والے علاقے ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے، جہاں کانگریس کی خاتون رکن اسمبلی سدھا رام کرشنن سے مارننگ واک کے دوران اسکوٹی سوار ایک شخص نے سونے کی چین چھین لی۔
تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ پیر کی صبح تقریباً 6 بجے کے بعد اُس وقت پیش آیا جب سدھا رام کرشنن پولینڈ ایمبیسی کے قریب واک کر رہی تھیں۔
ایک ہیلمٹ پہنے اسکوٹی سوار آہستہ آہستہ ان کے قریب آیا، اور جیسے ہی موقع ملا، ان کے گلے سے سونے کی چین زور سے کھینچ لی، جس کے نتیجے میں ان کی گردن پر چوٹ بھی آئی۔
رکن اسمبلی نے فوری طور پر بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر واقعے کی شکایت درج کرائی اور اسے خواتین کی سیکیورٹی کے حوالے سے خطرناک پیغام قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "اگر دہلی کے ہائی سیکیورٹی زون میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں، تو ملک کے باقی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔"
مقامی پولیس نے مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاہم تاحال کسی گرفتاری کی اطلاع نہیں ملی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔