بانی جیل میں انتظار کرتا رہا، چوری کھانے والے مجنوں پارلیمنٹ سے ہی نہیں نکلے
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
سٹی42: بانی اڈیالہ جیل میں انتظار کرتا رہا کہ ارکانِ پارلیمنٹ اس کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے آئیں گے اور پی ٹی آئی کے "چوری کھانے والے مجنوں" احتجاج کے لئے اڈیالہ جیل جانا تو درکنار پارلیمنٹ کی عمارت سے ہی باہر نہیں نکلے۔ اجلاس ختم ہو گیا تو پی ٹی آئی کے ارکان لابی میں جا کر بیٹھ گئے۔
معلوم ہوا ہے کہ آج اسلام آباد مین پارلیمنٹ ہاؤس مین قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا تو تحریک انصاف اراکین قومی اسمبلی نے گرفتاری کےخوف سے پارلیمنٹ کی عمارت سے باہر جانے سے گریز کیا اور اجلاس ختم ہونے کے باوجود اراکین لابی میں بیٹھے رہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے آج اپنے ارکان پارلیمنٹ کو اڈیالہ جیل کے باہر پہنچ کر بانی کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔
الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے تین ارکان کو نااہل قرار دے دیا،9 نشستیں خالی ہو گئیں
ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے پی ٹی آئی کے باقی ماندہ ارکان نے آج سپیکر سردار ایاز صادق سے ملاقات بھی خود درخواست کی کہ گرفتاری سے بچایا جائے۔
سپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے ارکان سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا، "میں پارلیمنٹ کی حدود سے آپ کو گرفتار نہیں ہونے دوں گا.
پی ٹی آئی کے بعض ارکان نے کہا کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں، ان کے لئے پارلیمنٹ کا دوسرا گیٹ کھلوا دیں۔ گھر جانے کی جلدی میں مبتلا ارکان قومی اسمبلی کے لئے سپیکر ایاز صادق نے پارلیمنٹ کی عمارت کا وہ گیٹ کھلوا دیا جہاں سے گزرتے وقت یہ ارکان خود کو "محفوظ" سمجھتے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی کے ارکان تب بھی پارلیمنٹ کی عمارت سے باہر نہ آئے۔
خاتون نے بوائے فرینڈ سے تحفے کے طور پر لیے آئی فونز فروخت کرکے اپنا گھر خرید لیا
پولیس اور ایف سی کی نفری پہلے بھی معمول کے مطابق باہر موجود ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی ارکان نے دوپہر دو بجے پارلیمنٹ کی عمارت سے نکلنا تھا مگر وہ جان بوجھ کر تاخیر کرتے رہے۔
محمود خان اچکزئی اور سلمان اکرم راجا ان چچوری کھانے والے مجنوؤں کو اپنے ساتھ اڈیالہ جیل لے جانے کے لئے قائل کرتے رہے، ناکام ہو گئے تو خود ہی اپنی گاڑیوں مین بیٹھ کراڈیالہ جیل کی طرف چلے گئے۔
اڈیالہ جیل کے سامنے احتجاج کی ہدایات دینے والا خود کہاں گیا
4 روزہ تعطیلات، بڑی خوشخبری آگئی
پی ٹی آئی کے دلیر ارکان تو پارلیمنت کا اجلاس ختم ہونے کے بعد اڈیالہ جیل جانے سے بچنے کے لئے پارلیمنٹ کی بلڈنگ سے ہی نہین نکلے لیکن ان کو احتجاج کرنے کی ہدایت دینے والے پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر ان سے بھی زیادہ دلیر نکلے، بیرسٹر گوہر آج پارلیمنٹ آئے ہی نہیں۔
بیرسٹر گوہر کی عدم موجودگی میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈر محمود خان اچکزئی کو نام نہاد "تحریک تحفظ آئین پاکستان" کے سربراہ کی حیثیت سے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کے لئے اکیلے ہی جانا پڑا۔ ایک خٓتون شاندانہ گلزار ان کے ساتھ گئیں اور ایک وکیل ان کے ساتھ گئے۔ محمود اچکزئی اور ان کے دو ہمراہیوں کو اڈیالہ جیل جانے والی سڑک پر چکری روڈ پر پولیس نے روکا تو وہ وہاں سے واپس اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
ہانگ کانگ میں طوفانی بارشوں نے 141 سالہ ریکارڈ توڑ دیا
پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آج کے احتجاج کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی بنائی ہی نہیں گئی تھی۔
Waseem Azmetذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پارلیمنٹ کی عمارت پی ٹی ا ئی کے قومی اسمبلی اڈیالہ جیل اجلاس ختم کے لئے
پڑھیں:
فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔