کراچی میں آٹا بھی مہنگا، روٹی بھی مہنگی
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
کراچی کے شہری، ملک میں سب سے مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ ایک اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کراچی میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا ایک ہزار 800 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں 20 کلو آٹے کا تھیلا ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں 440 روپے تک مہنگا ہے۔
حکومت پاکستان کے ادارئہ شماریات کی ایک دستاویز کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں 20 کلو آٹے کا تھیلا لاہور کے مقابلے میں 420 روپے اور پشاور کے مقابلے میں 300 روپے مہنگا ہے۔ اس سرکاری دستاویز میں کراچی میں فروخت ہونے والے آٹے کی قیمتوں کا ملک کے مختلف شہروں سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اس موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور کوئٹہ کے مقابلے میں کراچی میں 20 کلو کے آٹے کا تھیلا 200 روپے تک مہنگا ہے جب کہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے مقابلے میں کراچی میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 440 روپے تک مہنگا ہے۔
اس دستاویز میں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا اور ملتان وغیرہ میں آٹے کے نرخوں کا کراچی سے موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ ان شہروں کے مقابلے میں کراچی میں آٹا مہنگا فروخت ہو رہا ہے۔ اس دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 20کلو آٹے کا تھیلا جو سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں 1680 روپے، لاڑکانہ اور پشاور میں 1500 روپے، بنوں میں 1400 روپے اور کوئٹہ اور خضدار میں یہی تھیلا 1600 روپے تک ملتا ہے۔ جب کراچی میں آٹا مہنگا ملتا ہے تو اس کا اثر آٹے سے بننے والی تمام مصنوعات پر پڑتا ہے۔
کراچی میں فروخت ہونے والی روٹی کی مختلف اقسام کی قیمتیں لاہور، اسلام آباد اور پشاور سمیت پورے ملک سے زیادہ ہیں۔ خوراک کا شعبہ صوبائی حکومت کے دائرئہ کار میں آتا ہے۔ کراچی میں آٹے اور روٹی کی قیمت کو کنٹرول کرنا، سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر بڑے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کا قبضہ ہے۔ ان میں سے بیشتر کی زمینوں پر گندم کاشت ہوتی ہے، اگر گندم کی قیمت کم ہوگی، تو ان بڑے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کا نقصان ہوگا۔
سندھ کی حکومت سے ہمدردی رکھنے والے کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کسان دوست ہے، اس بناء پر کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے گندم کی زیادہ قیمت رکھی جاتی ہے مگر گزشتہ دنوں سندھ کے ہاریوں کے حالاتِ کار کے بارے میں ہونے والے ایک سیمینار میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ حکومت سندھ غریب ہاریوں کے ساتھ نامناسب سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔
ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن نے ایک تقریب میں (H.
پیپلز پارٹی نے 1970کے منشور میں اس قانون کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا اور پھر 1977 کے انتخابات کے موقعے پر پیپلز پارٹی کے منشور میں اسی طرح کے نکات شامل کیے گئے تھے مگر پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت ختم ہوگئی اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں پیپلز پارٹی کے غریب ہاریوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ 1983 کی ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ان غریب ہاریوں اور سیاسی کارکنوں نے قومی شاہراہ پر کئی دفعہ دھرنے دیے تھے۔
پیپلز پارٹی 1988 میں برسر اقتدار آئی تو پیپلز پارٹی کا کلچر تبدیل ہوگیا تھا۔ اب پیپلز پارٹی زرعی اصلاحات کے نعرے سے پیچھے ہٹ گئی اور فری مارکیٹ اکنامی کی پالیسی بن گئی۔ پیپلز پارٹی کے اسی کلچر سے یہ شاخسانہ سامنے آیا کہ سندھ اسمبلی نے 2015 میں Tenancy Actمیں ترمیم کی، اس ترمیم کے ذریعے ہاریوں کے حقوق کو غضب کیا گیا۔ اسمبلی میں موجودہ حزبٍ اختلاف کے اراکین اس قانون میں کی جانے والی ترمیم کے نقصانات کو یا تو سمجھ نہ سکے یا انھوں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے حزبِ اقتدار سے اتحاد کیا، یوں یہ قانون صوبہ میں نافذ ہوگیا۔
اس قانون کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے ایک مناسب فیصلہ تحریر کیا مگر یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مفاد میں نہیں تھا، اس بناء پر پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی تھی۔ ہاری کمیٹی اور ہاریوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے ہمیشہ یہ سوال اٹھایا کہ صوبائی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کیوں دائر کی تھی؟ ہاری رہنما فاضل راہو کے صاحبزادہ اسماعیل راہو جو ایک زمانے میں صوبائی وزیر تھے نے یہ وعدہ کیا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کی اپیل واپس لے لے گی، مگر حکومت یہ وعدہ بھول گئی۔
ہاریوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن ہر سال اپنی سالانہ رپورٹ کے اجراء پر حکومت سندھ کو یہ وعدہ یاد دلاتی ہے مگر سندھ حکومت کی ترجیحات میں نہ تو اندرونِ سندھ کے ہاری ہیں نہ شہری علاقوں کے غریب مزدور۔ اس سیمینار میں انسانی حقوق کمیشن HRCP کے سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خضر نے باؤنڈڈ لیبر Bounded Labour کے خراب حالات کار کی طرف اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرائی۔ قاضی خضر کہتے ہیں کہ سندھ میں ہزاروں باؤنڈڈ لیبر جاگیرداروں کی جیلوں میں بند ہیں جو انسانی حقوق کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے مگر حکومت اس مسئلے پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ قاضی خضر کا کہنا تھا کہ Bounded Labour System (Abolition) Act پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے تاکہ موجودہ دور کے غلاموں کو اس نظام سے نجات مل سکے۔
ماہرِ سماجیات ڈاکٹر ریاض شیخ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ خلیجی ممالک میں جن پاکستانی فقیروں کے خاندانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر اجرتی غلام ہیں جو اپنے روزگار سے محروم ہوگئے تھے، اس لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔ حکومت سندھ کی بری طرزِ حکومت کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ اندرونِ سندھ پیپلز پارٹی کو کوئی چیلنج نہیں ہے۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران اندرونِ سندھ کے مختلف علاقوں سے بااثر سیاسی خاندانوں کی اکثریت پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی۔ اس بناء پر طرزِ حکومت کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت شفاف نظام کے قیام پر یقین نہیں رکھتی۔ اس بناء پر نہ صرف حکومت میں شامل افراد بلکہ پیپلز پارٹی کے حامیوں کی اکثریت کو بھی ہر طرح سے کمانے کی آزادی ہے اس بناء پر پیپلز پارٹی کو کوئی چیلنج نہیں ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے کچھ عرصے قبل ایک غیر رسمی ملاقات میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ کراچی میں پنجاب کے مقابلے میں روٹی مہنگی کیوں ہے؟ تو وزیر اعلیٰ نے اس کی ساری ذمے داری بیوروکریسی پر عائد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں تعینات بیوروکریسی میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اہم مسائل کے حل کے لیے مکینزم بنا سکے۔
پیپلزپارٹی، سندھ کی موجودہ حکومت 2008 میں قائم ہوئی تھی۔ یہ ساری بیوروکریسی ان ہی کے دور میں پروان چڑھی ہے۔ بیوروکریسی کی نااہلی کی ایک مثال سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی ناقص کارکردگی ہے جس کے نتیجے میں بیمار جانوروں کا گوشت آسانی سے کراچی میں مل جاتا ہے۔ پنجاب کی طرح کھانے پینے کی اشیاء کے معیار پر یہ اتھارٹی بالکل توجہ نہیں دیتی جس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بہرحال آخری تجزیہ ہے کہ کراچی کے عوام کو مہنگا آٹا اور مہنگی روٹی ملتی رہے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کے پیپلز پارٹی کی میں کراچی میں کے مقابلے میں کہ کراچی میں غریب ہاریوں ہے کہ کراچی اس بناء پر ہاریوں کے کی حکومت مہنگا ہے کہ سندھ کیا گیا روپے تک سندھ کے کا کہنا میں آٹے نہیں ہے کے لیے تھا کہ گیا ہے
پڑھیں:
کراچی، یومِ استحصالِ کشمیر پر سندھ حکومت کی ریلی، کشمیریوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین
ریلی سے خطاب میں صوبائی وزراء سمیت دیگر مقررین نے کہا کہ پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے غیر قانونی طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، پاکستانی قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہر فورم پر ان کی حمایت جاری رکھے گی۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ یومِ استحصالِ کشمیر کے موقع پر سندھ حکومت کے زیر اہتمام پیپلز چورنگی سے مزارِ قائد تک ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی میں صوبائی وزراء سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی، سید ذوالفقار علی شاہ، معروف حریت رہنما پرویز احمد شاہ، مختلف محکموں کے سیکریٹریز، اسکولوں کے طلبہ و طالبات، اساتذہ اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ریلی کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا اور کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کرنا تھا۔ شرکاء نے کشمیر بنے گا پاکستان اور بھارت مردہ باد جیسے نعرے لگائے اور کشمیری بھائیوں کی قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
مقررین نے کہا کہ پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے غیر قانونی طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، پاکستانی قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہر فورم پر ان کی حمایت جاری رکھے گی۔ ریلی کے اختتام پر مزارِ قائد کے سامنے احتجاجی جلسہ کیا گیا جس سے صوبائی وزراء سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ آخر میں کشمیری شہداء کے ایصالِ ثواب کے لیے دعا بھی کی گئی۔