سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل حریف
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
سندھ میں 17 سالوں سے برسر اقتدار پیپلز پارٹی 2008 سے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی آ رہی ہے کہ پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف، مسلم لیگ (ق) کے طویل اقتداری دور کے بعد 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہمدردی کا ووٹ حاصل کیا تھا اور پیپلز پارٹی کی باگ ڈور عملی طور پر آصف علی زرداری کے ہاتھ آ گئی تھی اور وفاق سمیت سندھ و بلوچستان میں پیپلز پارٹی سے الحاق کر کے اے این پی نے اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت بنائی تھی ۔
2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی نے پہلی بار اپنی حکومتوں کی 5 سالہ مدت پوری کی تھی اور صدر زرداری نے ہی اپنی وفاقی حکومت میں 18 ویں ترمیم متفقہ طور پر میاں رضا ربانی کے ذریعے منظورکرائی تھی، جس کے نتیجے میں صوبوں کو بااختیار بنوایا گیا تھا اور صوبوں کے مقابلے میں وفاق مالی طور پرکمزور بلکہ صوبوں کے آگے بے بس ہوگیا تھا۔
پیپلز پارٹی کی وفاقی اور سندھ حکومتوں میں سندھ کے لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے کھل کر نوازا اور فنڈز بھی دل کھول کر خرچ کیے تھے۔ صدر آصف زرداری جنھیں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا تھا، انھوں نے پی پی کے اندرون سندھ مخالفین کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنا شروع کرایا جس سے پیپلز پارٹی مضبوط ہوتی گئی۔
2013 میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انھوں نے سندھ اور کے پی حکومتوں سے مزاحمت نہیں کی کیونکہ ویسے بھی 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق صوبوں پر حاوی نہیں رہا تھا اور صوبوں کو خود مختاری مل چکی تھی جس کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی پالیسی مفاہمانہ کرنا پڑی تھی۔ 2014 میں (ن) لیگ کے خلاف پی ٹی آئی نے جو لانگ مارچ کیا اور اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھا اور نواز شریف حکومت ختم کرانے کی کوشش کی جس پر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا مکمل ساتھ دیا تھا جس سے دونوں پارٹیوں کے تعلقات میں کافی بہتری آئی تھی ویسے بھی مشرف دور میں لندن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہو چکا تھا۔
2013 کے انتخابات میں سندھ سے مسلم لیگ (ن) کو کچھ نشستیں ملی تھیں مگر نواز شریف نے سندھ پر توجہ نہیں دی بلکہ اپنے ارکان اسمبلی کو نظرانداز کیا اور وہ مایوس ہو کر (ن) لیگ کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونا شروع کیا مگر نواز شریف نے فکر نہیں کی، اس طرح سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہوتا گیا جس کے ذمے دار خود وزیر اعظم نواز شریف تھے جو سندھ سے اپنی پارٹی کا خاتمہ ہوتے دیکھتے رہے جس کے نتیجے میں 2018 میں سندھ سے مسلم لیگ (ن) ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی تھی۔ 2018 میں (ن) لیگ کے سارے رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے تھے۔
2024 کے انتخابات سے پیر صاحب پگاڑا بھی فوت ہو چکے تھے اور ان کے جانشین میں وہ سیاسی صلاحیت نہیں تھی کہ فنکشنل لیگ کو متحد رکھ سکتے، ان کے رہنما بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوتے رہے۔ سندھ کے کئی اضلاع سے فنکشنل لیگ بھی ختم ہوتی گئی تھی اور سندھ مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے زیر اثر آ گیا۔ پی پی میں آنے والوں کو پیپلز پارٹی میں نوازا بھی گیا۔
2024 کے انتخابات سے قبل جی ڈی اے بنایا گیا جس کو سندھ میں اہمیت نہ ملی تو پی پی مخالفین نے جے یو آئی میں شامل ہونا شروع کردیا اور سندھ کے پی پی مخالف سیاستدانوں نے پہلی بار جے یو آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا، مگر کامیاب نہ ہو سکے اور بالاتر بھی جے یو آئی پر مہربان نہیں تھے۔
جے یو آئی اندرون سندھ پانچ دہائیوں سے اہم سیاسی قوت رہی ہے اور ہر الیکشن میں حصہ لیتی رہی ہے اور اندرون سندھ اس کے لاکھوں کارکن بھی موجود ہیں اور 2024 سے اس کے پاس بااثر امیدوار بھی آ گئے اور اب جے یو آئی سندھ میں پیپلز پارٹی سے مقابلے کے لیے اہم سیاسی حریف بن کر ابھری ہے، کیونکہ مولانا سندھ پر توجہ بھی دے رہے ہیں۔ اندرون سندھ میں کوئی اور پی پی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور جی ڈی اے بھی مسلسل ناکام رہی ہے، اس لیے مستقبل میں جے یو آئی ہی پیپلز پارٹی کی اہم حریف بن کر پی پی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی میں میں شامل ہو نواز شریف جے یو آئی مسلم لیگ تھا اور رہی ہے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی آئینی عدالت پرمتفق، میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں،رانا ثناء
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ جن چیزوں کا ذکر بلاول بھٹو نے کیا کونسی چیز ہے جو زیر بحث نہیں رہی، ان چیزوں پر تو گفتگو دو چار ماہ سے ہورہی ہے، اتحادیوں اور دیگر سے بات کریں گے، اتحادیوں سے مشاورت کے بعد چیزوں کو سامنے لائیں گے۔
مشیر وزیراعظم نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی دستاویز لوگوں کے درمیان لائیں جس پر اتفاق ہو یہ زیادہ مناسب ہوگا، ترمیم اگر آرہی ہے تو اس میں جمہوریت کے لیے کوئی خطرے کی بات نہیں، 27ویں ترمیم پر ابھی مشاورت کا آغاز ہوا ہے ،اسٹیک ہولڈز سے مشاورت ہوگی۔
رانا ثناء نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں ہمارا پہلے دن سے موقف ہے کہ آئینی عدالت بننی چاہیے، سب کی رائے ہے اگر آئینی عدالت ہو تو بہتر اور پائیداری سے معاملہ چل سکتا ہے، آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ کی تجویز پی ٹی آئی نے دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا آئینی عدالت پر اتفاق ہے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، ججز کے ٹرانسفر کا اختیار حکومت کو نہیں جوڈیشل کمیشن کو ہونا چاہیے، این ایف سی پر بات شروع ہوگی تو پتا چلے گا کون ناراض اور کون راضی ہے۔
رانا ثناء نے مزید کہا کہ اپوزیشن میں تو دوڑ لگی ہے کہ کون زیادہ جارحانہ انداز اپنائے اور اس کی تعریف ہو، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے ہماری بات کروادیں، وزیراعظم نے دو مرتبہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے بات کی، اتفاق رائے کے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی۔