سب سے بڑا منشیات فروش؛ ٹرمپ کا وینزویلا کے صدر کی گرفتاری پر 50 ملین ڈالر انعام کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
واشنگٹن: امریکا نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو پر دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں میں سے ایک ہونے کا الزام لگایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا نے اس الزام کو بنیاد بناتے ہوئے وینزویلا کے صدر کی گرفتاری میں مدد دینے والے کو 50 ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وینزویلا کے صدر کی گرفتاری پر انعامی رقم پہلے 25 ملین ڈالر تھی جسے اب دگنا کردیا گیا۔
نکولس مادورو پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ کولمبین باغی گروپ FARC کے ساتھ مل کر امریکا میں کوکین پھیلا رہے ہیں تاکہ امریکی معاشرے کو تباہ کردیا جائے۔
امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی (DEA) نے 30 ٹن کوکین ضبط کی جن میں سے تقریباً 7 ٹن وینزویلا کے صدر سے منسلک تھیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ بقیہ 23 ٹن کوکین بھی وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے قریبی ساتھیوں کی تھیں۔ نکولس مادورو کا تعلق ٹرین دے اراگوا نامی وینزویلی گینگ اور میکسیکو کے سینالوا کارٹل سے بھی ہے۔
یاد رہے کہ ان دونوں تنظیموں کو امریکی حکومت نے دہشت گرد تنظیمیں قرار دیکر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
دوسری جانب، وینزویلا کے وزیر خارجہ ایوان گل نے اس اقدام کو مضحکہ خیز اور سیاسی پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی چالوں سے کوئی حیرت نہیں کیوں کہ ٹرمپ جیفری ایپسٹین کیس جیسے حساس معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ نکولس مادورو 2013 سے وینزویلا کے صدر ہیں۔ ان پر انتخابات میں دھاندلی، اپوزیشن کی آواز دبانے اور سیاسی تشدد جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں بھی یہی الزامات سامنے آئے جس پر برطانیہ اور یورپی یونین نے نوکلس مارودو کی حکومت پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
جون میں نکولس مادورو کے سابق انٹیلیجنس چیف ہوگو کارواخل کو بھی امریکا میں منشیات اسمگلنگ کے الزامات پر سزا سنائی گئی۔
تاہم انٹیلی جنس چیف بوگو کارواخل نے بعد میں اپنا جرم قبول کر لیا تھا جس سے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وہ اپنے صدر کے خلاف گواہی دینے کے بدلے میں سزا میں نرمی چاہتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وینزویلا کے صدر نکولس مادورو
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کا اسرائیل کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا منصوبہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کو 6 ارب 40 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مجوزہ معاہدے میں حملہ آور ہیلی کاپٹرز اور فوجی گاڑیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں ان ہتھیاروں کی ممکنہ فروخت کی خبر دی، تاہم وائٹ ہاؤس نے اس پر کسی تبصرے سے گریز کیا۔ یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب آئندہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہونے والا ہے اور اسی دوران سلامتی کونسل غزہ کی صورتحال پر خصوصی اجلاس بلانے جا رہی ہے۔
مجوزہ دفاعی پیکیج میں 3 ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کے 30 اے ایچ-64 اپاچی ہیلی کاپٹرز، ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کی لاگت سے 3 ہزار 250 پیادہ فوجی جنگی گاڑیاں، اور مزید 75 کروڑ ڈالر مالیت کے پرزہ جات شامل ہیں جو بکتر بند گاڑیوں اور بجلی کی فراہمی کے نظام میں استعمال ہوں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیلی فوج کے لیے یہ بھرپور حمایت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکی ڈیموکریٹس کی بڑی تعداد اسرائیل کے غزہ پر حملوں پر کھلے عام تشویش ظاہر کر رہی ہے۔ جمعرات کو امریکی سینیٹرز کے ایک گروپ نے پہلی مرتبہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی، جبکہ حالیہ ہفتوں میں نصف سے زیادہ ڈیموکریٹ سینیٹرز اسرائیل کو مزید اسلحہ بیچنے کی مخالفت میں ووٹ دے چکے ہیں۔