امریکا نے وینزویلا کے صدرکی گرفتاری کے لیےانعامی رقم 50 ملین ڈالرکردی
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
امریکا نے وینیزویلا کے صدرنکولس مادورو کے خلاف انعامی رقم دوگنی کرکے 50 ملین ڈالر کردی ہے، جس کا مقصد لاطینی امریکا کے مطلق العنان لیڈر پردباؤ بڑھانا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دورسے جاری ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ انصاف نے اس انعام کی اطلاع دی ہے کہ یہ رقم اس شخص کو دی جائے گی جو نکولس مادورو کی گرفتاری یا سزا میں مددگار معلومات فراہم کرے گا۔
https://Twitter.
امریکی اٹارنی جنرل پامیلا بونڈی نے ریکارڈ شدہ بیان میں اسے ایک تاریخی انعام قرار دیتے ہوئے نکولس مادورو پر الزام عائد کیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی دہشت گرد قرار دی گئی منشیات کے منظم گروہوں کا استعمال کرتے ہوئے منشیات اور تشدد کو امریکا میں اسمگل کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وینزویلا کے متنازع صدارتی انتخابات میں نکولس مادورو کی فتح کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع
انسداد منشیات کے ادارے نے 30 ٹن کوکین ضبط کی ہے جو نکولس مادورو اور اس کے ساتھیوں سے منسوب ہے، جس میں سے قریب 7 ٹن براہ راست نکولس مادورو سے جڑے ہیں، اس کے علاوہ، اس کا محکمہ انصاف نکولس مادورو سے منسلک 700 ملین ڈالر کے اثاثے ضبط کرچکا ہے، جن میں 2 پرائیویٹ جیٹ بھی شامل ہیں۔
پامیلا بونڈی کا کہنا تھا کہ نکولس مادورو دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں میں سے ایک ہے اور ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ’صدر ٹرمپ کی قیادت میں مادورو انصاف سے بچ نہیں پائے گا اور اپنے گھناونے جرائم کا حساب دے گا۔‘
دوسری جانب، وینیزویلا نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے، وزیر خارجہ ایوان گل پنٹو نے ٹرمپ انتظامیہ کے انعام کو مضحکہ خیز اور سب سے بیوقوفانہ دھوکہ قرار دیا۔ ’یہ خاتون میڈیا سرکس کا مظاہرہ کر رہی ہے تاکہ وینیزویلا کی شکست خوردہ انتہائی دائیں بازو کو خوش کرے۔‘
مزید پڑھیں:امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
نکولس مادورو پر یہ الزامات پہلے بھی لگ چکے ہیں، اور 2020 میں امریکا نے انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو منشیات کی اسمگلنگ سے جڑے ایک گینگ کا رہنما قرار دے کر گرفتاری کے لیے 15 ملین ڈالر انعام دیا تھا۔
یہ انعام صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں 25 ملین ڈالر تک بڑھایا گیا تھا، اوراب ٹرمپ انتظامیہ نے اسے مزید بڑھا کر 50 ملین ڈالر کر دیا ہے، جو منشیات کی اسمگلنگ اورغیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت قدم ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں امریکی سرحد پر مہاجرین اور منشیات کی روک تھام پر زور دیا ہے، اور لاطینی امریکا کے گینگز کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے کر سخت کارروائیاں شروع کی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی سرحد ٹرمپ انتظامیہ دہشت گرد صدر نکولس مادورو لاطینی امریکا منشیات وینزویلا وینیزویلاذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی سرحد ٹرمپ انتظامیہ صدر نکولس مادورو لاطینی امریکا منشیات وینزویلا وینیزویلا
پڑھیں:
بگرام ایئر بیس کی واپسی: صدر ٹرمپ کی افغانستان کو بڑی دھمکی
امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بگرام ایئر بیس اُن لوگوں کو واپس نہیں دیا گیا جنھوں نے اسے بنایا یعنی امریکا تو بہت برا ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے یہ بیان اپنی سوشل میڈیا پوسٹ ٹروتھ سوشل میں لکھا اور بعد ازاں رپورٹرز سے بھی اسی اشارے میں بات کی، جس میں اُنھوں نے بگرام کی اسٹریٹجک اہمیت پر زور دیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق بگرام ایئر بیس 2021 میں امریکی انخلا کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آگیا تھا جبکہ طویل عرصے تک یہ امریکی آپریشنز کا مرکز رہا ہے۔ اس ایئر بیس کی بحالی یا امریکی دسترس دوبارہ حاصل کرنے کے خیال نے خطّے میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔
یہ پڑھیں: امریکا اور افغانستان میں بگرام ایئربیس پر مذاکرات کا آغاز، صدر ٹرمپ کی تصدیق
خبر ایجنسی کے مطابق طالبان اور کابل میں افغان سرکاری حلقوں نے فی الفور اس مطالبے کی مخالفت کی ہے اور بیرونی فوجی موجودگی کی بازگشت پر سختی سے انکار کیا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ کابل مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن امریکا کو وسطی ایشیائی ملک میں فوج کی تعیناتی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بگرام کی دوبارہ واپسی یا بحالی عملی طور پر پیچیدہ اور مہنگی ثابت ہو سکتی ہے، اس میں بڑے فوجی وسائل اور خطّے میں طویل مدت کے دفاعی انتظامات درکار ہوں گے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کو بگرام ایئربیس کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا اور اب اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں۔