انجمن شرعی شیعیان کے صدر نے کہا کہ عوام کو چاہیئے کہ ایسے عناصر کی نشاندہی کریں اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کو فوراً حکام تک پہنچائیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے صدر آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے مرکزی امام باڑہ بڈگام میں دو اہم اور سنگین عوامی مسائل جن میں معتبر علمی کتب پر پابندی اور کشمیر بھر میں گلے سڑے گوشت کے حالیہ اسکینڈل شامل ہیں، پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معتبر محققین اور مایہ ناز مؤرخین کی تصنیفات پر پابندی کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہے اور اس طرح کے اقدامات سے نہ تو تاریخی حقائق کو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کشمیری عوام کی جیتی جاگتی یادوں کے ذخیرے کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کو ایک کھلا تضاد قرار دیا کہ ایک طرف جاری "کتاب میلہ" کے ذریعے ادبی وابستگی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف علمی و تحقیقی کتب پر پابندی لگا کر فکری آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ جمعہ خطبہ کے دوران آغا حسن الموسوی الصفوی نے کشمیر بھر میں گلے سڑے، بغیر لیبل اور مشتبہ گوشت کی بڑے پیمانے پر فروخت کے انکشافات پر شدید غم و غصہ ظاہر کیا۔

انہوں نے کہا کہ فوڈ اینڈ ڈرگز ایڈمنسٹریشن (FDA) کی کارروائیوں کے دوران سرینگر، پلوامہ، گاندربل اور دیگر اضلاع سے مجموعی طور پر 3,500 کلوگرام سے زائد غیر معیاری اور خطرناک گوشت ضبط کیا گیا۔ انہوں نے اس جرم کو "معاشرتی ضمیر اور اخلاقی اقدار کی کھلی تذلیل" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض فوڈ سیفٹی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سماجی و اخلاقی بحران ہے، جو ہمارے احتسابی نظام اور اجتماعی بیداری پر سوالیہ نشان ہے۔ آغا حسن الموسوی الصفوی نے کہا کہ یہ وقت صرف حکومتی کارروائی کا نہیں بلکہ معاشرتی بیداری کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو چاہیئے کہ ایسے عناصر کی نشاندہی کریں اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کو فوراً حکام تک پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک صحت مند معاشرہ اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب عوامی اخلاقیات، قانونی عملداری اور حکومتی احتساب ایک ساتھ کام کریں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حسن الموسوی پر پابندی نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی، روپے کو استحکام ملنے لگا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں انٹربینک میں امریکی ڈالر معمولی کمی کے بعد مزید سستا ہوگیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پیر کے روز ڈالر ایک پیسہ کم ہوکر 281 روپے 45 پیسے پر بند ہوا، جبکہ ہفتے کے روز یہ 281 روپے 46 پیسے کی سطح پر تھا۔ بظاہر یہ تبدیلی بہت معمولی ہے، مگر ملکی معیشت کے تناظر میں زرِ مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔

ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی درآمدی اخراجات میں اضافہ کرتی ہے، کیونکہ مشینری، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگی پڑتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور عام شہریوں کی زندگی کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیگر تمام شعبوں پر دباؤ ڈال دیتا ہے۔

دوسری جانب ڈالر کی قدر میں معمولی کمی برآمدی شعبے کے لیے مثبت ثابت ہو سکتی ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈی میں سستا کرتی ہے، جس سے ٹیکسٹائل، زراعت اور چمڑے کی صنعتوں کو زیادہ آرڈرز ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔

تاہم، یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ڈالر میں لیے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے زیادہ روپے درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں استحکام برقرار رکھنا حکومت اور اسٹیٹ بینک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

متعلقہ مضامین

  • معاہدے کی تقدیس اور تاریخ کا سچ!
  • امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی ٹل گئی، ٹرمپ کا چین کے ساتھ ڈیل کو قانونی قرار دینے کا فیصلہ
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی، روپے کو استحکام ملنے لگا
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات  کے درمیان 81 لاکھ ڈالرز کا بیف ایکسپورٹ معاہدہ
  • حکومت کشمیر کی سیب کی صنعت کو دانستہ طور پر تباہ کر رہی ہے، وحید پرہ
  • کوئٹہ: امیرجماعت اسلامی بلوچستان اور رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن ہفتہ بیاد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سلسلے میں کتابوں کے اسٹال کا دورہ کررہے ہیں
  • مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے کوئی بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم شہباز شریف
  • دہلی ہائی کورٹ: عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر پابندی کا فیصلہ برقرار
  • سرینگر:”عوامی ایکشن کمیٹی” اور ” جموں و کشمیر اتحاد المسلمین” پر پابندی کا فیصلہ برقرار