Express News:
2025-11-09@06:42:14 GMT

دہشت گرد اور قومی مفادات

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

پاکستان کے دو صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد اور ان کی پراکسیز ان صوبوں کے عوام اور ریاست پاکستان کے مفادات کے خلاف مسلسل کام کر رہی ہیں۔ یہ دونوں صوبے شمال مغرب میں افغانستان اور ایران کے ساتھ لگتے ہیں، گزشتہ ستر برسوں سے یہ سرحد خاصی نرم چلی آ رہی ہے لیکن کچھ عرصے سے یہ سرحد پاکستان کے لیے بے پناہ مسائل کا باعث بنی ہوئی ہے۔

ویسے تو افغانستان کی ہر حکومت نے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کیا ہے لیکن افغانستان پر قابض حالیہ طالبان کی حکومت کے دور میں پاکستان کے لیے مسائل زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والے گروہ افغانستان میں آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کی قیادت افغانستان کے اندر بآسانی پورے ملک میں آ جا بھی رہے ہیں اور وہاں کاروبار بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان کی وادیٔ تیرہ میں بھی دہشت گرد گروہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے لیے اور وہاں کی پرامن عوام کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں جب کہ بلوچستان میں فتنۃ الخوارج یعنی طالبان اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کا اتحاد بی اے ایل اور دیگر دہشت گرد بلوچ تنظیموں کے ساتھ قائم ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے مسلسل ان دہشت گردوں سے برسرپیکار ہیں۔

گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق پاک فوج نے بلوچستان کے ضلع ژوب میں بھارتی حمایت یافتہ خوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ اس کارروائی میں پاک فوج نے 33 خوارج کو ہلاک کر دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 7 اور 8 اگست کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ضلع ژوب کے عمومی علاقے سمبازہ میں افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔

اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دراندازی کرنے والے بھارتی پراکسی گروپ ’’فتنہ الخوارج‘‘ کے ایک بڑے گروہ کی نقل و حرکت کا سراغ لگایا گیا، فورسز نے فوری اور مؤثر کارروائی کرتے ہوئے دراندازی کی اس کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ جرأت مندانہ، مہارت بھری اور عین ہدف پر کی گئی کارروائی کے نتیجے میں 33 بھارتی حمایت یافتہ خوارج واصلِ جہنم ہوئے ہیں جن سے بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے تاکہ کسی بھی باقی ماندہ دہشت گرد کو ختم کیا جا سکے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملکی سرحدوں کے دفاع اور بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔

صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ضلع ژوب میں بھارتی سرپرستی میں سرگرم 33 خوارج کو جہنم واصل کرنے پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا ہے کہ مادر وطن کے دفاع میں پاک فوج کی جرات، مہارت اور بروقت کارروائی قابل فخر ہے، صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع کرے گا ، پوری قوم اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کی در اندازی ناکام بنائی اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ژوب میں 33 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔ ادھر ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کے مطابق سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر صوبے میں موبائل ڈیٹا سروس 31 اگست تک بند رہے گی۔

صوبائی وزارت داخلہ کے 6 اگست کو جاری نوٹیفیکشن کے مطابق صوبے میں فوری طور پر موبائل ڈیٹا سروس کی بندش کے احکامات دیے گئے ہیں، جس کا اطلاق 31 اگست تک رہے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق انٹرنیٹ سروس کی بندش کا فیصلہ سیکیورٹی صورتحال کے تحت کیا گیا ہے۔

متعلقہ اداروں کو 3 جی اور 4 جی سروس کو صوبے میں بند کرنے کی درخواست کی گئی۔ ترجمان نے غیرملکی خبررساںادارے کو بتایا کہ دہشت گرد انٹرنیٹ سروس کے ذریعے باہمی رابطے میں رہتے تھے جس کی وجہ سے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پاکستان اس خطے کا اہم ترین ملک ہے، یہاں اعلیٰ پائے کا انفرااسٹرکچر بھی موجود ہے جب کہ دنیا کی بہ ترین اور پروفیشنل فوج بھی رکھتا ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر بھی ایک وژن رکھتا ہے اور اس کے امریکا اور یورپ سمیت سعودی عرب اور برطانیہ جیسے اہم ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں جب کہ افغانستان ایک پسماندہ اور تباہ حال ملک ہے۔

اس ملک میں جدید انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ ملک کا سسٹم بھی جدید تقاضوں کے مطابق موجود نہیں ہے۔ جوڈیشل سسٹم سے لے کر بیورو کریٹک سسٹم تک یہ ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے۔ اس لیے یہاں کسی حکومت کے لیے پورے ملک پر کنٹرول کرنا تقریباً ناممکن ہے خصوصاً ایسی حکومت جو کسی عوامی مینڈیٹ کے بغیر اقتدار میں آئی ہو، اس کے لیے تو ملک پر کنٹرول رکھنا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کہنے کو تو ایک حکومت ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو وہ جنگجوؤں کے ایک گروپ کا اقتدار ہے جب کہ وہاں کئی گروپ ایسے ہیں جو آج بھی اپنی مرضی سے نقل وحرکت کر رہے ہیں، ان میں داعش، خراسان اور القاعدہ باقیات وغیرہ شامل ہیں جب کہ ٹی ٹی پی باقاعدہ طور پر طالبان کی اہم اتحادی ہے۔

اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کے دو صوبوں میں جو دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں، ان میں افغانستان کی زمین استعمال نہیں ہو رہی اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کو اس حقیقت کا علم نہیں ہے۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وجوہات ان صوبوں کا نیم خواندہ اورپسماندہ سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ ہے۔ غور کیا جائے تو ان صوبوں میں صوبائی حکومتیںبھی موجود ہیں، صوبائی ادارے بھی موجود ہیں اور اربوں روپے کا بجٹ بھی ان صوبوں کے پاس ہوتا ہے، ان صوبوں کے اہم سیاست دان اور اسٹیک ہولڈرز قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان بھی منتخب ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں، انھیں فنڈز بھی ملتے رہے ہیں اور تنخواہیں اور مراعات بھی ملتی رہی ہیں اور آج بھی مل رہی ہیں۔

ان صوبوں میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازم بھی ہیں جنھیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں بھی دی جارہی ہیں۔ ان صوبوں کے سیاست دان اور اسٹیک ہولڈر پاکستان کے اہم ترین عہدوں پربھی فائز رہے ہیں اور اب بھی ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ ان صوبوں کو نمایندگی نہیں ملتی، اس میں اتناوزن نہیں ہے۔

بلوچستان میں پشتو بیلٹ کے اضلاع آج بھی پسماندہ ہیں، انفرااسٹرکچر کی کمی ہے، کالج اور یونیورسٹیاں موجود نہیں ہیں، پرائمری اسکول سسٹم اگر موجود بھی ہے تو بہت پسماندہ قسم کا ہے، صنعت کاری اور دیگر کاروباری سرگرمیاں بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ کیاہے؟ اعلیٰ پائے کی درسگاہیں قائم کرنا صوبوں کا دائرہ اختیار بھی ہے۔

وفاق میں بھی بلوچستان کی پشتو بیلٹ سے بہت سے لیڈر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں، وہ اگر دلچسپی لیتے تواعلیٰ پائے کی تعلیمی درسگاہیں بآسانی قائم کی جا سکتی تھیں، صنعتی زون قائم کیے جا سکتے تھے،امن وامان قائم کرنے کے لیے وہ کردار ادا کر سکتے تھے اور کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اسی طرح بلوچ علاقوں سے بھی طاقتور اسٹیک ہولڈر صوبے کے اقتدار پر بھی قابض رہے ہیں اور وفاق میں بھی اعلیٰ ترین اور بااثر عہدوں پر رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ اس کے باوجود بلوچ علاقے پسماندہ ہیں تو اس کی ذمے داری بھی کہیں نہ کہیں تو ان اسٹیک ہولڈرز پر بھی عائد ہوتی ہے۔

بلوچ قوم پرست سیاست دان دہشت گرد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ بی ایل اے اور اس کی حامی تنظیمیں گن کے زور پر جو ایجنڈا مسلط کرنا چاہتی ہیں، وہ ایجنڈا بلوچ عوام کے حق میں ہے نہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ بلوچستان کو ترقی دینے کے لیے قومی سیاست ناگزیر ہے۔

بلوچ پاکستان کی دیگر اکائیوں سے الگ نہیں ہیں۔ پاکستان کے ہرصوبے میں بلوچ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور پاکستان میں بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور بڑے بڑے کاروبار کے مالک بھی ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ اس لیے جس ریاست کے ساتھ مفادات وابستہ ہوں اس ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں کی تو خواہش ہے کہ وہ پاکستان کی اکائیوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو نفرت اور اشتعال میں بدل دیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیکیورٹی فورسز افغانستان کی ان صوبوں کے رہے ہیں اور پاکستان کی پاکستان کے کر رہے ہیں ہیں اور ا کے مطابق رہی ہیں کے ساتھ پاک فوج بھی ہیں نہیں ہے ا ج بھی کے لیے اس لیے اور اس

پڑھیں:

ہر سال 7 ہزار ارب روپے کا قرضہ، پیپلز پارٹی نے وفاق سے بڑا مطالبہ کر دیا

لاہور:

تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا ہے کہ صوبوں کا موقف ہے وفاقی حکومت اپنے خرچے کم نہیں کررہی، اس میں جو مالی نظم وضبط ہونا چاہیے وہ نہیں آرہا۔

انھوں نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا دوسری دلیل یہ ہے کہ اس میں مالی نظم وضبط آہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے خرچے پورے نہیں ہورہے جس کے باعث ہرسال 6،7 ہزار ارب روپے ادھار لینا پڑیں گے، یہ سب سے اہم نکتہ ہے جس پر پیپلزپارٹی نے اپنی تجاویز دی ہیں۔

شہباز رانا نے کہا ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد پلڑا صوبوں کی طرف ہوگیا، ان کے پاس اتنا پیسہ آگیا ہے، جس کے بعد پنجاب اور سندھ میں نئے ادارے بنائے جارہے ہیں، تنخواہیں بڑھائی جارہی ہیں،بے تحاشا گاڑیاں لی جارہی ہیں، یہی کچھ وفاقی حکومت میں بھی ہو رہا ہے۔

کے پی کے حکومت کا کہنا ہے این ایف سی میں صوبوں کا کتنا حصہ ہوگا یہ فیصلہ مالیاتی کمیشن نے کرنا ہے مگر اس کے اجلاس سے پہلے ترمیم کی جارہی ہے۔

کامران یوسف نے کہا وفاق نے یہ طے کیا تھا جب زیادہ وسائل صوبوں کو دیں گے تو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں ہرسال ایک فیصد اضافہ کریں گے۔ شہباز رانا نے کہا آج  بھی ایف بی آر کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب10.3فیصد ہے،جس میں 15 برسوں میں ایک فیصدبھی اضافہ نہیں ہواجو13سوارب بنتا ہے،جسے 5سے ضرب دی جائے تویہ 65سو ارب بنتا اور سارے مسائل حل ہوجاتے۔

انھوں نے کہا پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے غیرملکی قرضوں کے معاہدوں کی منظوری پارلیمینٹ سے لی جائے، پاکستان کے عوامی قرضے 80.5 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

کامران یوسف نے بتایا پاکستان نے استنبول مذاکرات میں مطالبہ کیا ہے افغان طالبان ،ٹی ٹی پی یا دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے، ترکی اور قطر بھی اپنی تجاویز دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • موضوع: سوڈان میں یو اے ای نواز گروہوں کی نسل کشی
  • صوبائی اختیارات میں کمی کے مخالف، جمہوریت پر اثر نہیں پڑنا چاہئے: فضل الرحمن
  • ہر سال 7 ہزار ارب روپے کا قرضہ، پیپلز پارٹی نے وفاق سے بڑا مطالبہ کر دیا
  • آرٹیکل 243 سے جمہوریت پر اثر پڑا تو قابل قبول نہیں، فضل الرحمان
  • سہیل آفریدی کا مساجد بارے بیان قومی وقار کو مجروح کرنے کی کوشش ہے، طاہر اشرفی
  • سہیل آفریدی کا مساجد بارے بیان قومی وقار کو مجروح کرنے کی کوشش ہے: طاہر اشرفی
  • صوبوں کے اختیارات میں کمی کی بات کی گئی تو مخالفت کریں گے، فضل الرحمان
  • استنبول مذاکرات: افغان سرزمین سے دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں، پاکستان  
  • استنبول مذاکرات: افغان سرزمین سے دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں، پاکستان
  • اٹھارویں ترمیم کا رول بیک تو ممکن ہی نہیں، شازیہ مری