مقبوضہ کشمیر میں 25 کتابوں پر حکومتی پابندی عائد، عوامی میں شدید تشویش
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: محکمہ داخلہ کے تازہ حکمنامے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ دانشوروں اور نامور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی زندہ یادوں کا ذخیرہ مٹ نہیں جائیگا، یہ صرف اسطرح کے آمرانہ اقدامات کے پیچھے چھپے لوگوں کے عدم تحفظ اور محدود سمجھ کو بے نقاب کرتا ہے اور اپنی ادبی وابستگی کو ظاہر کرنے کیلئے چل رہے کتاب میلے کے فخریہ انعقاد میں تضاد کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں "علیحدگی پسندی کو فروغ دینے" اور "ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے" کے الزام میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے بعض کتابیں سرکردہ ہندوستانی اور غیر ملکی مصنفین سمیت معروف مؤرخین نے لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں 5 اگست کو جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جاری کئے گئے ایک حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں جموں و کشمیر کے بارے میں "غلط بیانیہ" پیش کرتی ہیں، جو نوجوانوں کو "تشدد اور دہشتگردی" کی طرف گمراہ کر رہی ہے۔ معلوم ہو کہ یہ آرڈر 2019ء میں بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو ہٹائے جانے کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کو ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کو ایک ریاست سے مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ تازہ ترین فیصلے میں جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں سے کچھ پبلشنگ انڈسٹری کے بڑے ناموں جیسے پینگوئن، بلومسبری، ہارپر کولنز، پین میک ملن انڈیا، روٹلیج اور ورسو بکس نے شائع کی ہیں اور اب محکمہ داخلہ کے حکم کا مطلب ہے کہ یہ پبلشرز اب ان کتابوں کو تقسیم یا دوبارہ پرنٹ نہیں کرسکیں گے۔
ان کتابوں کی فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی بہت مشہور کتاب "دی کشمیر ڈسپیوٹ"، برطانوی مصنفہ اور مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ کی "کشمیر ان کانفلیکٹ – انڈیا، پاکستان اینڈ دی ان اینڈنگ وار"، بکر پرائز یافتہ ارندھتی رائے کی "آزادی" اور لندن کے سکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی "کنٹسٹیڈ لینڈز" شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ محکمہ داخلہ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں کو انڈین سول ڈیفنس کوڈ 2023ء کی دفعہ 98 کے مطابق ضبط قرار دیا جانا چاہیئے۔ یہ دفعہ حکومت کو کتابیں یا دیگر دستاویز کو ضبط کرنے اور ایسے دستاویزوں کے لئے سرچ وارنٹ جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں نے نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کی بڑائی بیان کرنے اور جموں و کشمیر پر "تاریخی یا سیاسی تبصرے" کی شکل میں ہندوستانی ریاست کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ لٹریچر شکایت، مظلومیت اور عسکریت پسندی کی بہادری کے کلچر کو فروغ دے کر نوجوانوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالے گا۔
حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کتابوں نے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے، دہشت گردوں کی بڑائی، بھارتی فورسز کی مذمت، مذہبی بنیاد پرستی، علیحدگی پسندی کو فروغ دینے، تشدد اور دہشت گردی کی راہ ہموار کرنے وغیرہ کے ذریعے جموں و کشمیر میں نوجوانوں کی بنیاد پرستی میں تعاون کیا ہے۔ محکمہ داخلہ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے اور ہندوستان کی خود مختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی پائی گئی ہیں اور اس لئے یہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 152، 196 اور 197 کی دفعات کے ماتحت ہیں۔ واضح ہو کہ بی این ایس کی دفعہ 152 ہندوستان کی خود مختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے سے متعلق جرائم سے متعلق ہے، بی این ایس کی دفعہ 196 مذہب، ذات وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق جرائم سے متعلق ہے، جبکہ بی این ایس کی دفعہ 197 قومی یکجہتی کے لئے متعصبانہ الزامات اور دعوے سے متعلق ہے۔
اس فہرست میں شامل دیگر اہم کتابوں میں آسٹریلوی ماہر تعلیم کرسٹوفر سنیڈن کی "انڈیپنڈنٹ کشمیر"، صحافی اور ایڈیٹر انورادھا بھسین کی "اے ڈسمینٹل اسٹیٹ -دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر دفعہ 370"، سیما قاضی کی لکھی ہوئی "بٹوین ڈیموکریسی اینڈ نیشن- جینڈر اینڈ ملٹرائزیشن ان کشمیر"، حفصہ کنجول کی "کولونائزنگ کشمیر" اور ڈیوڈ دیوداس کی لکھی ہوئی "ان سرچ آف اے فیوچر دی سٹوری آف کشمیر" سمیت ایسی کئی کتابیں شامل ہیں، جنہوں نے وادی اور وہاں لوگوں کی کہانیاں دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔ اس سلسلے میں انورادھا بھسین، جن کی آرٹیکل 370 کی منسوخی پر لکھی کتاب کو محکمہ داخلہ نے نشانہ بنایا ہے، نے دہشت گردی کی بڑائی بیان کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا کہ یہ کتابیں اچھی طرح سے تحقیق شدہ ہیں اور ان میں سے ایک بھی دہشت گردی کی تعریف بیان نہیں کرتی، جسے یہ حکومت ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ آپ کو جھوٹ کو چیلنج کرنے والے الفاظ سے ڈر لگتا ہے، میں کتابوں پر پابندی عائد کرنے والوں (مسخ شدہ ذہنیت کی مضحکہ خیز علامت) کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ دہشتگردی کی تعریف کرنے والے ایک لفظ کو بھی ثابت کریں، جو لوگ سچائی کو اہمیت دیتے ہیں انہیں اسے پڑھنا چاہیئے اور خود فیصلہ کرنا چاہیئے۔
محکمہ داخلہ کے تازہ حکم نامے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ دانشوروں اور نامور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی زندہ یادوں کا ذخیرہ مٹ نہیں جائے گا، یہ صرف اس طرح کے آمرانہ اقدامات کے پیچھے چھپے لوگوں کے عدم تحفظ اور محدود سمجھ کو بے نقاب کرتا ہے اور اپنی ادبی وابستگی کو ظاہر کرنے کے لئے چل رہے کتاب میلے کے فخریہ انعقاد میں تضاد کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ وہیں راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا نے لکھا کہ اس طرح کا عمل خیالات، بحث اور اختلاف کے تئیں بنیادی خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتابوں پر پابندی کسی بھی جمہوریت میں انتہائی رجعت پسندانہ قدم ہے، یہ خیالات، بحث اور اختلاف کے تئیں بنیادی خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ جمہوریت خیالات کے آزادانہ تبادلے پر پروان چڑھتی ہے، یہاں تک کہ ان خیالات پر بھی جو سرکاری سچائی سے متفق نہ ہوں یا اس کی تنقید کرتے ہیں۔ جس لمحے ہم کسی کتاب پر پابندی لگاتے ہیں، وہ اس کی طاقت کا نہیں بلکہ عدم تحفظ کی نشاندہی کرتی ہے۔
منوج کمار جھا نے مزید کہا کہ یہ بات چیت کے ذریعے مخالف خیالات سے منسلک ہونے میں حکومت کی نااہلی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایک باشعور شہری کی پرورش کے بجائے، یہ معاشرے کو جہالت اور مطابقت کی طرف دھکیلتا ہے، ایک خود اعتماد جمہوریت کو ہر آواز کے لئے جگہ بنانی چاہیئے، یہاں تک کہ ان کے لئے بھی جن سے یہ اختلاف کرتی ہے۔ ڈیوڈ دیوداس جن کی کتاب "ان سرچ آف اے فیوچر – دی سٹوری آف کشمیر" ان ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں شامل ہے، نے کہا کہ کتابوں پر پابندی لگانا ہماری ثقافت اور جمہوریت کے تصور کے خلاف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تاریخ نے بار بار دکھایا ہے کہ کتابوں کو جلانا اور اس پر پابندی عائد کرنا تہذیبوں کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ دیوداس نے کہا کہ ان کی کتاب سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے امن اقدام اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات جاری رکھنے میں اپنے مفادات رکھنے والوں کو اس کتاب سے نفرت ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے ایجنڈے کی حمایت کرنے والوں کے لئے یہ لعنت ہے۔
انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ جن کتابوں نے حقیقت کو سامنے لانے کا کام کیا، تنازعات کے سازشی عناصر اور بیرونی طاقتوں کی حکمت عملی کو بے نقاب کیا اور امن کے لئے کردار ادا کیا، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے فکرمند شہریوں کے ایک غیر رسمی گروپ، فورم فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ سینسر شپ کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانے کی ایک اور مثال ہے جو کہ پورے ہندوستان میں نظر آرہا ہے اور جموں و کشمیر میں تو سب سے زیادہ اس وقت اس کا مشاہدہ کیا گیا، جب 2019ء میں ریاست کو تقسیم کرکے یونین ٹیریٹری میں بدل دیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے اس پابندی کو اظہار رائے کی آزادی پر ایک اور سفاک حملہ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں پارٹی پولٹ بیورو نے لیفٹیننٹ گورنر سنہا پر الزام لگایا کہ وہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور جارحانہ طور پر ہندوستانی آئین کے ذریعے فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ علیحدگی پسندی اور دہشتگردی کو فروغ دینے کے بہانے، ان کی انتظامیہ نے کشمیر کی تاریخ اور اس کے موجودہ مسائل کی جڑوں پر روشنی ڈالنے والی 25 کتابوں پر پابندی لگا دی ہے۔ سی پی آئی (ایم) ان کتابوں پر سے فوراً پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پارٹی نے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ منتخب حکومت کو مکمل انتظامی اختیارات دیئے جائیں۔ ایسے اقدامات سے ہی جموں و کشمیر کے لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ اس معاملے پر شہری حقوق کی کارکن اور فری اسپیچ کلیکٹو کی شریک بانی گیتا شیشو نے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، وہ سرکردہ ماہرین تعلیم، محقق اور صحافی کی کتابیں ہیں، جو مبینہ طور پر کشمیر کے تنازعے کا ایک بامعنی تاریخی تجزیہ فراہم کرتی ہیں۔ شیشو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ مضحکہ خیزی ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اسٹیشنری کی دکانوں اور اسکول کالجوں کی کتابوں کی دکانوں پر ماہرین تعلیم، محققین اور صحافیوں کی کتابوں کی تلاشی لے رہی ہے، جلد ہی تعلیم خود ایک شدت پسند سرگرمی بن جائے گی، پروپیگنڈے کا بول بالا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پابندی نے جموں و کشمیر میں جمہوریت کی حالت اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کتابوں پر پابندی میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کے پر پابندی عائد علیحدگی پسندی دہشت گردی کی کو فروغ دینے بی این ایس نے لکھا کہ کرتے ہوئے کتابوں کی ان کتابوں کتابوں کو کی کتابوں کہا کہ یہ کے ذریعے مزید کہا ہے کہ یہ کرتی ہے ہیں اور کرتا ہے کی کتاب کرنے کا کی دفعہ کے لئے کو بھی اور اس
پڑھیں:
راولپنڈی: جرگے کے حکم پر غیرت کے نام پر لڑکی کا قتل، مقدمے میں مزید دفعات شامل
راولپنڈی میں جرگے کے حکم پر غیرت کے نام پر لڑکی کے قتل کے مقدمے میں مزید دفعات کا اضافہ کر دیا گیا۔
راولپنڈی پولیس نے مقدمہ میں لڑکی کو اغوا کرنے کی دفعہ بھی شامل کرلی، نئی دفعہ لڑکی کو قتل کی نیت سے اغوا کرنے کے شواہد اور معلومات ملنے پر شامل کی گئی۔
گرفتار ملزمان نے لڑکی کو قتل کرنے کے لئے کشمیر سے واپس لانے کا اعتراف کیا تھا، جرگہ سربراہ پہلے ہی لڑکی کو کشمیر سے لانے اور قتل کرکے پیرودہائی قبرستان میں دفن کرنے کا اعتراف کر چکے ہیں۔
گزشتہ روز ملزمان کی نشان دہی پر مقتولہ کا بیگ اور موبائل فون بھی پولیس نے برآمد کرلیا تھا، پولیس ذرائع نے کہا کہ
ملزمان سے کشمیر جانے اور آنے کے لئے استعمال کی گئی گاڑیوں کے حوالے سے بھی تفتیش جاری ہے،