کورنگی انڈسٹریل ایریا؛ ایک طویل سڑک، کئی سوالات
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
کچھ عرصہ پہلے میرا دفتر شارع فیصل پر تھا اور رہائش ملیر میں، لیکن اب دفتر ڈیفنس فیز 8 منتقل ہوچکا ہے، اور میرا روزانہ کا راستہ کورنگی انڈسٹریل ایریا سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ وہ طویل، مصروف اور اہم سڑک ہے جو قیوم آباد، جام صادق پل سے شروع ہوتی ہے اور داؤد چورنگی تک جاتی ہے۔
کراچی کا کورنگی انڈسٹریل ایریا ایک اہم صنعتی زون ہے جہاں ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے قائم ہیں۔ روزانہ لاکھوں افراد اسی علاقے کا رخ کرتے ہیں، چاہے ملازمت کےلیے ہوں یا کاروباری مقاصد کے تحت۔ لیکن اس صنعتی ترقی کے سائے میں ایک ایسا بحران پنپ رہا ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور وہ ہے ٹریفک کا سنگین مسئلہ۔
کورنگی انڈسٹریل ایریا کی مرکزی شاہراہ ایک طویل، چوڑی تین رویہ سڑک ہے جو قیوم آباد، جام صادق پل سے شروع ہو کر مرتضیٰ چورنگی اور پھر داؤد چورنگی تک جاتی ہے۔ اس راستے میں بروکس، شان، ویٹا، بلال، سنگر اور مرتضیٰ چورنگیاں واقع ہیں۔ ان تمام چورنگیوں پر دن بھر ٹریفک کا شدید دباؤ رہتا ہے۔
یہ روڈ شہر کے مختلف حصوں سے آنے والے ہزاروں موٹر سائیکل سواروں، رکشہ، چنگچی، بسوں، پرائیویٹ گاڑیوں، اور بھاری ٹرکوں کی گزرگاہ ہے۔ لیکن سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اتنے اہم راستے پر نہ کوئی پیڈسٹرین برج ہے، نہ ٹریفک سگنلز، نہ ٹریفک پولیس کی موجودگی۔
عوام اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑک پار کرتے ہیں۔
چورنگیاں عمومًا وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں چاروں سمت سے ٹریفک آتا ہے۔ یہاں ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کےلیے خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کورنگی انڈسٹریل ایریا کی چورنگیاں لاوارث دکھائی دیتی ہیں۔ نہ کوئی سگنل، نہ ٹریفک پولیس، نہ پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی محفوظ راستہ۔ نتیجتاً یہاں حادثات معمول بن چکے ہیں۔
شام کو جب فیکٹریوں سے ورکرز نکلتے ہیں تو صورتحال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ فیکٹری کی بسیں سڑک کے کنارے کھڑی ہوجاتی ہیں تاکہ ورکرز ان میں سوار ہوسکیں۔ اس وجہ سے تین رویہ سڑک عملاً دو یا ایک رویہ رہ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بھاری گاڑی درمیان میں رک جائے تو پورا ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ کسی قسم کی ٹریفک مینجمنٹ یا قانون نافذ کرنے والا ادارہ نظر نہیں آتا۔
انڈسٹریز کی بسیں جو سڑک کے ایک طرف قطار میں کھڑی ہوتی ہیں، نہ صرف ٹریفک کا بہاؤ متاثر کرتی ہیں بلکہ حادثات کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔ یہ بسیں اچانک روڈ پر موو کرتی ہیں اور اس عمل سے باقی ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اکثر رکشہ اور چنگچی جیسے چھوٹے موٹرز بیچ میں پھنستے ہیں، اور کبھی کبھار تو جھگڑے تک نوبت آ جاتی ہے۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اربوں روپے کمانے والے صنعتی ادارے اپنی سڑکوں، اپنے ورکرز اور عام شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ وہ اگر چاہیں تو:
ورکرز کی بسوں کے لیے فیکٹری حدود کے اندر پک اینڈ ڈراپ پوائنٹس بنا سکتے ہیں۔
پیڈسٹرین برج تعمیر کروا سکتے ہیں۔
روڈ کو سیل کیا جائے تا کہ کوئی درمیان سے کراس ہی نہ کر سکے؟
چورنگیوں پر سگنلز اور ٹریفک کنٹرول سسٹم نصب کروا سکتے ہیں۔
یہ صرف صنعتی اداروں کی نہیں بلکہ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ ٹریفک کنٹرول، پیدل چلنے والوں کے لیے پل، سڑکوں پر روشنی اور ٹریفک پولیس کی مستقل موجودگی بنیادی ضروریات ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہم کب جاگیں گے؟ ہمیں اس وقت جاگنا ہوگا جب حادثہ ہوچکا ہوگا؟ یا ہم بطور شہری، ادارے، اور حکومت، آج ہی ان خامیوں کی اصلاح کریں گے؟ شہری زندگی کا تحفظ صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
اگر ہم نے ٹریفک قوانین، پیدل چلنے والوں کی حفاظت، اور سڑکوں کی منظم پلاننگ پر توجہ نہ دی، تو یہ خاموش خطرات ایک دن بہت بلند آواز میں ہمیں جگائیں گے، شاید بہت دیر ہوچکی ہو۔ یہ وقت ہے عملی اقدامات کا، تاکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جانیں صرف لاپرواہی کی بھینٹ نہ چڑھیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کورنگی انڈسٹریل ایریا جاتی ہے کے لیے
پڑھیں:
اللہ تو ضرور پوچھے گا !
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کے کٹھ پتلی حکمران اور کچھ کریں نہ کریں چوری چھپے معاہدے کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ ویسے ماہر تو وہ ہر اس چیز میں ہیں جس سے ان کی جیبیں اور بینک بیلنس ڈالروں سے بھرتے رہیں۔ ویسے بھی تمام معاہدے عوام ہی کے مفاد میں تو کیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام ان کے ثمرات دیکھنے میں سالوں گزار دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا آ رہا ہے۔
ہاں کبھی کبھار کچھ دینی اور سیاسی جماعتوں کی رگِ غیرت پھڑکتی ہے تو وہ احتجاج بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن آخر کار کچھ شور شرابہ کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔ انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے گا۔ یہ خاموشی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ کوئی زلزلہ یا طوفان جیسی بڑی آفت لوگوں کو دوبارہ سے نہیں جھنجوڑ ڈالتی۔ اس دوران جب حکومتی رویہ غیر ذمہ دارانہ رہتا ہے اور عوام کو کسی قسم کی امداد نہیں ملتی تو یہی عوام غصے میں بھرے جتنا برا بھلا حکومت وقت کو کہہ سکتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ لیکن جب ملک کی مختلف فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی طرف سے بھرپور امداد کے بعد جب دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اور سیلاب کا پانی بھی خود ہی خشک ہو جاتا ہے تو تب تک لوگوں کا غصہ بھی رفو چکر ہو چکا ہوتا ہے اور دوسری طرف عوام کے خیر خواہ سیاستدان بیرونی امداد سمیٹے اور ہضم کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسری آفت عوام کو اپنے شکنجے میں نہیں لے لیتی۔ اب ایک اور معاہدہ جو منظر عام پر آیا ہے وہ سعودی حکومت اور پاکستان کے درمیان طے پایا ہے اور حکومتی درباری اس کی خوشیاں منا رہے ہیں۔عوام حج عمرہ کر کے ثواب پر ثواب کما رہے ہیں اور ہمارے حکمران حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ ملنے پر دنیا اور آخرت کی فلاح سمیٹنے کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔
کاش ان جاہلوں کو معلوم ہو کہ حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ رب العزت نے خود اٹھا رکھا ہے۔ ان مسلم حکمرانوں پر جتنی ذمہ داریاں اللہ نے ڈالی تھیں یہ اس کو ہی پورا کر دیتے تو بڑی بات تھی۔ فلسطین کے معاملے کو لے کر پاکستان اور امت مسلمہ کا کردار تو سب پر ہی عیاں ہے۔ سعودی حکمرانوں کے بارے میں تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ یہود و نصاری کے حمایت یافتہ ہیں اور اس کا تو صاف مطلب ہے کہ اگر وہ امریکہ کے دوست ہیں تو پاکستان کو بھی امریکہ کی ہی ہر بات ماننی پڑے گی۔ ویسے تو پاکستان کی حکومت پہلے ہی اُسے اپنا آقا بنائے بیٹھی ہے۔ بہرحال یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معاہدہِ ابراہیم کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حمایتیوں نے اہلِ فلسطین کو ان حالوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا انداز میں حکومتِ پاکستان کا کردار سامنے آئے گا۔
حکومتی اہلکار کس قسم کی تحسین کے حقدار بن رہے ہیں اور کس بات کی خوشیاں منا رہے ہیں؟ بے بس، مظلوم اور نہتے فلسطینیوں تک خوراک تو پہنچا نہیں سکے چلے ہیں اللہ کے گھر کی حفاظت کرنے۔ اس معاہدے کے پسِ منظر میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے کوئی ہے جو اس پر سوال اٹھائے؟ بھانت بھانت کی مذہبی و سیاسی جماعتیں، اور فلاحی تنظیمیں مل کر بھی حکومت پر ذرہ برابر بھی دباؤ نہ ڈال سکیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں، واقعی دل پتھر کے تو ہو گئے ہیں۔ ایٹم بم کا راگ الاپنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو مسلم حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا خانہ کعبہ کا خدا کوئی اور ہے اور نبیوں کی سرزمین اور مسجدِ اقصیٰ کا خدا کوئی اور ہے؟ یہ حکمران عوام کو تو جواب نہیں دیں گے لیکن اللہ کو تو جواب دینا ہی پڑے گا۔