دنیا بھر کی جیلوں میں 17 ہزار سے زائد پاکستانی قید، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
--فائل فوٹو
چیئرمین ذیشان خانزادہ کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز کا اجلاس ہوا، جس میں غیر ممالک میں قید پاکستانیوں سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
حکام وزارت داخلہ کے مطابق 17 ہزار 236 پاکستانی مختلف ممالک میں قید ہیں، مشرق وسطیٰ میں 15 ہزار 238 پاکستانی قید ہیں، سری لنکا سے 56، برطانیہ سے 6، سعودی عرب سے 27 قیدیوں کو تبادلے کے معاہدے کے تحت لایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ چین سے 5 قیدی جلد وطن واپس آئیں گے، متعلقہ ملک ہماری ایمبیسی کو بتاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی پکڑا ہے، اس پر ایمبسی متعلقہ شخص کی شہریت چیک کرتی ہے۔
ناصر بٹ نے کہا کہ اگر اس نے جرم کیا ہے تو ہمیں معلوم تو ہو کہ وہ پاکستانی ہے، جو غلط کام کر دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں یہ پاکستانی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ تفصیلات فراہم نہیں کی جاتی۔
ڈائریکٹر برائے سمندر پار پاکستانیز نے کہا ہے کہ 78 پاکستانی قیدی افغان جیل میں ہیں، افغان حکام ہمیں جرم اور ٹرائل کی تفصیلات فراہم نہیں کرتے، ہمارا سفارتخانہ جاکر دیکھتا ہے کہ وہ پاکستانی ہیں کہ نہیں۔ افغانستان کا اپنا قانونی نظام ہے، افغانستان میں کسی طالب کو گھور کر بھی دیکھ لیا تو بندہ جیل چلا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کینیڈا والے بھی قیدیوں کی تفصیلات نہیں دیتے، پاکستان کے مشن سے رابطے میں ہوتے ہیں، ایمبسی تب تک ایکشن میں آسکتی ہے جب میزبان ملک بتائے کہ پاکستانی گرفتار کیا ہے۔
اسلام آباد وزارت اوورسیز پاکستانیز نے انکشاف.
حکام برائے سمندر پار پاکستانیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 100 سے زائد سفارت خانے ہیں۔ صرف 16، 17 ایمبیسی میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی ہیں، کتنے پاکستانی قیدی ہیں مختلف جیلوں میں یہ معلوم کرکے بتا دیں گے۔
شہادت اعوان نے کہا کہ کون سے ممالک پاکستانی قیدیوں کی تفصیلات نہیں دیتے؟
کمیونٹی ویلفیر اتاشی برائے ریاض نے کہا کہ جو ڈیٹا ہمیں لینا ہے وہ ہم سعودی وزارت خارجہ کے ذریعے لیتے ہیں، معلومات نہ دینا یا پوشیدہ رکھنے کا مسئلہ درپیش نہیں، سعودی حکام ہمیں معلومات دیتے ہیں، حکومت سے حکومت ڈیٹا لیتی ہے، سعودی وزارت خارجہ اپنی وزارت داخلہ کے ذریعے معلومات لے کر ہمیں دیتی ہے، جب تک ڈیٹا آتا ہے دو تین ماہ گزر جاتے ہیں، سعودی اسٹیٹ سیکیورٹی کیسز میں جو گرفتاری کرتے ہیں، ان کی تفصیلات میں تاخیر ہوتی ہے، سعودی اتھارٹی میں 180 دن کی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔
ویلفییر اتاشی برائے ملائیشیا کا کہنا ہے کہ ہمیں ڈیٹا لینے میں مسئلہ ہوتا ہے، کافی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، ہمارا ملائیشیا کی اتھارٹی سے اچھا رابطہ ہے، 459 پاکستانی قیدی ملائیشیا میں ہیں، 80 فیصد زیادہ رکنے کے باعث ہیں، کچھ قتل کے کیسز میں ہیں، اس سال 1200 ڈیپورٹیشنز ہوئی ہیں ملائیشیا سے، ملائیشیا میں قید 2 افراد جنسی زیادتی کے کیسز میں ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث 2 اور 13 قتل کے کیسز میں قید ہیں، ملائیشیا کے کمشنر پولیس نے کہا کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز بہت زیادہ ہیں، ملائیشیا کے کمشنر پولیس کا ایسا کہنا ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔
ویلفیئر اتاشی برائے یو اے ای نے بتایا کہ ابھی 3 ہزار 523 پاکستانی قیدی یو اے ای کی جیل میں قید ہیں، 40 افراد دبئی میں قید ہیں، قیدیوں کے ڈیٹا سے متعلق رابطے میں رہتے ہیں۔
چیئرمین ذیشان خانزادہ نے کہا کہ اتنی مرتبہ قیدیوں کی تفصیلات مانگی، اب تفصیلات آنا شروع ہوئی ہیں، ہمیں جرائم کی نوعیت بھی درکار ہے۔
ویلفیئر اتاشی برائے دوحا نے کہا کہ اس وقت قطر میں 619 پاکستانی قیدی ہیں، جس میں سے 3 خواتین ہیں، 70 فیصد تک افراد منشیات میں ملوث ہیں، اس پر 20 سال تک سزا ہے، منشیات پر 30 ،40 ہزار ریال جرمانہ ہے، کوئی تفصیلات نہیں کہ منشیات میں ملوث شخص نے جرمانہ ادا کیا ہو۔
شہادت اعوان نے کہا کہ منشیات میں ملوث شخص پاکستان آئے تو اس کا مزید ٹرائل ہونا چاہیے، ہمیں منشیات میں ملوث شخص کو سہولت نہیں دینی چاہیے۔
ناصر بٹ نے سوال کیا کہ ایران میں کیسے 4 پاکستانی قید ہیں؟
راجہ ناصر عباس نے بتایا کہ ایران میں بہت پاکستانی قید ہیں، مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، عراق میں پاکستانیوں کا پاسپورٹ لے کر رکھ لیتے ہیں، یہ ہماری توہین ہے، باقی ممالک کے پاسپورٹ کیوں نہیں رکھتے۔
حکام وزارت داخلہ نے کہا کہ ہمیں ایران کی جانب سے معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، وہاں سیکڑوں پاکستانی قید ہوں گے، سب سے زیادہ زائرین جاتے ہیں۔
ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ہمارے پاس تفصیلات ہونی چاہیے تاکہ پھر ہم قید شخص کو قانونی مدد فراہم کریں، وزارت سمندر پار پاکستانی، داخلہ، خارجہ ہمیں فائنل ڈیٹا دیں کہ کتنے پاکستانی قیدی بیرون ملک جیلوں میں ہیں، ایران کے حوالے تفصیلات فراہم کریں۔
وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ جب ہمیں قیدیوں کا علم ہوتا ہے تو اس کے کارڈ سے اس کی شہریت کی تصدیق کردیتے ہیں، ہمارا افغانستان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہیں ہے، افغانستان سے ڈیٹا لینا بہت مشکل ہے، ایران میں ہمارے لوگوں کو سب سے زیادہ دقت ہوتی ہے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: منشیات میں ملوث پاکستانی قیدی پاکستانی قید وزارت داخلہ اتاشی برائے میں قید ہیں کی تفصیلات نے کہا کہ دیتے ہیں کیسز میں میں ہیں کے کیسز
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری، وزیراعظم نے حکومتی، اتحادی سینیٹرز کو عشائیے پر بلا لیا
سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی، وزیراعظم نے حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کو آج عشائیے پر مدعو کرلیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ عشائیے کا مقصد آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پارلیمانی حکمت عملی کو حتمی شکل دینا اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہے۔
وزیراعظم اس موقع پر سینیٹرز کے تحفظات بھی دور کریں گے، وزیراعظم کی جانب سے تمام حکومتی اور اتحادی سینیٹرز کو دعوت نامے موصول ہو گئے ہیں۔
عشائیہ آج شام ساڑھے 6 بجے وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا۔
27ویں ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی کے سپرد
27ویں آئینی ترمیم کا بل ہفتے کے روز سینیٹ میں پیش کر دیا گیا تھا، اور اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا تھا، کچھ دیر قبل ہی وفاقی کابینہ نے اس کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
تقریباً دوپہر کو سوا ایک بجے کچھ تاخیر سے شروع ہونے والے سینیٹ اجلاس کا آغاز ہوا تو وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سوال و جواب کے سیشن اور دیگر کارروائی معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اراکینِ سینیٹ کو ترمیم سے آگاہ کر سکیں۔
وزیرِ قانون نے بل ایوانِ بالا میں پیش کیا، جس پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اسے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو جائزے اور غور کے لیے بھیج دیا تھا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ ایوان میں پیش کیا گیا بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر تفصیلی غور کرے، پارلیمانی روایت اور آئینی ترامیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین اور اراکین کو بھی مدعو کرے تاکہ وہ اس عمل میں شریک ہو سکیں اور اپنی تجاویز دیں۔
انہوں نے مزید کہاتھا کہ دونوں کمیٹیاں مشترکہ اجلاس منعقد کر سکتی ہیں اور تفصیلی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی۔
اجلاس کے دوران تحریکِ انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ جب اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی ہے تو آئینی ترمیم پر بحث مناسب نہیں، حکومت اور اتحادی جماعتیں بل کو جلد بازی میں منظور کرانا چاہتی ہیں۔
علی ظفر نے کہا تھا کہ میں یہ مشورہ دوں گا کہ اسے کمیٹی میں بھیجنے کے بجائے پورے سینیٹ کو ہی کمیٹی تصور کیا جائے تاکہ تمام اراکین بحث میں حصہ لے سکیں, اپوزیشن کو آج ہی بل کا مسودہ ملا ہے اور اب تک انہوں نے اسے پڑھا بھی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایسی چیز پر بحث نہیں کر سکتے جو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔