انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
غزہ :حالیہ عرصے میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، جس نے پوری دنیا کے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ پیر کے روز عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین-اسرائیل مسئلے پر ہنگامی اجلاس بلایا، جس میں چین کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے فو چھونگ نے اپنے بیان میں “چار ضروری اقدامات” پیش کیے۔ انہوں نے چین کے موقف کو واضح طور پر بیان کیا، فلسطین-اسرائیل مسئلے کے مناسب حل کے لیے اہم تجاویز پیش کیں، اور بین الاقوامی انصاف اور عدل کے تحفظ کے لیے چین کی دانشمندی کا اظہار کیا۔چین کے پیش کردہ “چار ضروری اقدامات” کی بہت زیادہ اہمیت ہے، ہر نقطہ موجودہ تنازعے کے اہم پہلوؤں کو نشانہ بناتا ہے۔ پہلا ضروری اقدام یہ ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر قبضے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کی جانی چاہیے، جو علاقائی خودمختاری کے اصولوں کا مضبوط تحفظ ہے۔ غزہ فلسطین کے علاقے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، اور اس کی آبادی اور علاقائی ساخت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ایسے قبضے کو خاموشی سے برداشت کیا جاتا ہے، تو بین الاقوامی نظم و ضبط میں خلل پڑے گا اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔دوسرا، طاقت کے زور پر چلنے کے تصور کو ترک کرنا ضروری اور لازم ہے ۔ فوجی اقدامات کبھی بھی مسائل کے حل کا بنیادی ذریعہ نہیں رہے، یہ صرف مزید جانی نقصان اور تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اسرائیل کی غزہ پر جاری فوجی کارروائیوں نے بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور بے گھری کو جنم دیا ہے، جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ فوری جنگ بندی ہی زندگیوں کو بچا سکتی ہے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی برادری اور اپنے عوام کی آواز سننی چاہیے اور تناؤ بڑھانے والے اقدامات کو روکنا چاہیے۔ ساتھ ہی، متاثرہ فریقوں پر اثر رکھنے والے ممالک کو غیر جانبدار اور ذمہ دارانہ رویہ اپنا کر جنگ بندی کو فروغ دینا چاہیے، نہ کہ آگ میں مزید ایندھن ڈالنا چاہیے۔تیسرا، غزہ میں انسانی بحران کو کم کرنا ہوگا، جو بنیادی انسانی تقاضا ہے۔ فی الحال غزہ کے عوام شدید بقائی بحران کا شکار ہیں، انسانی امدادی سامان کی شدید قلت ہے، اور غزہ کے عوام کو اجتماعی سزا دینے اور امدادی سامان تلاش کرنے والے عام شہریوں اور امدادی کارکنوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں۔ اسرائیل کو، بطور قبضہ کرنے والے، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر، تیزی سے اور محفوظ طریقے سے غزہ میں انسانی امدادی سامان کی ترسیل کو یقینی بنائے اور اقوام متحدہ کی امدادی کوششوں کی حمایت کرے۔چوتھا، “دو ریاستی حل” کے امکانات کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، جو فلسطینی مسئلے کے حل اور فلسطین-اسرائیل کے پرامن بقائے باہمی کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے، “دو ریاستی حل” کی بنیاد مسلسل کمزور ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے فلسطین-اسرائیل تنازعہ بار بار جنم لے رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو اس سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مزید کوششیں کرنی چاہئیں، اس کی بنیاد کو کمزور کرنے والے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کرنی چاہیے، اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے چاہئیں۔انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے قائم رکھنے، سپورٹ کرنے اور عمل میں لانے کے لیے لوگوں کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی معاشرے میں یہ کردار تمام رکن ممالک کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر انصاف نہیں ہوگا، تو بین الاقوامی معاشرہ ایک جنگل بن جائے گا جہاں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے، اور انسانی معاشرہ ایک ظالم شکار گاہ میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہ صورت حال انسانی اخلاقیات اور جدید تہذیب کے بالکل منافی ہے، اور ہمیں اسے ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔چین ہمیشہ سے انصاف اور حق پرستی کا ساتھ دیتا آیا ہے اور فلسطین-اسرائیل مسئلے کے پرامن حل کے لیے سرگرم عمل رہا ہے۔ بین الاقوامی ثالثی میں فعال کردار ادا کرنے سے لے کر غزہ کو انسانی امداد فراہم کرنے تک، اور اب “چار ضروری اقدامات” پیش کرنے تک، چین نے عملی اقدامات کے ذریعے بین الاقوامی انصاف اور عدل کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن صرف چین کی کوششیں کافی نہیں ہیں، بین الاقوامی برادری کے ہر رکن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔اقوام متحدہ، بطور بین الاقوامی نظم و ضبط کے محافظ، کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور تمام فریقوں کو بین الاقوامی قانون پر عمل کرنے اور تنازعے کے پرامن حل کو فروغ دینے کی ترغیب دینی چاہیے۔ بااثر ممالک کو غیر جانبدارانہ موقف اپنانا چاہیے نہ کہ اپنے مفادات کی خاطر کسی ایک فریق کی حمایت کرنی چاہیے۔ تمام ممالک کو متحد ہو کر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانا چاہیے، انسانی بحران کو کم کرنا چاہیے، “دو ریاستی حل” کو نافذ کرنا چاہیے، تاکہ بین الاقوامی معاشرے میں انصاف اور حق پرستی کو فروغ ملے، امن کی روشنی فلسطین اور اسرائیل کی سرزمین پر پڑے، اور بین الاقوامی معاشرہ جنگل کے قانون کے تاریک غار میں گرنے سے محفوظ رہ سکے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فلسطین اور اسرائیل فلسطین اسرائیل بین الاقوامی اقوام متحدہ اسرائیل کے کرنا چاہیے انصاف اور ممالک کو کے لیے
پڑھیں:
فلسطین کا ترکی کے اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کا خیرمقدم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: فلسطینی وزارتِ خارجہ نے ترکی کی جانب سے 37 اسرائیلی اعلیٰ حکام کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی انقرہ کے جرات مندانہ اقدام کی پیروی کرے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق فلسطینی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ترکی کا یہ جرات مندانہ قانونی اقدام انصاف کے اصول کی جیت ہے، جو اس عالمی ارادے کی عکاسی کرتا ہے جو اسرائیل کو دی جانے والی بے حساب چھوٹ کے خلاف کھڑا ہے، یہ فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے عالمی دائرہ اختیار ایک مسلمہ اصول ہے۔
وزارتِ خارجہ نے ترکی کے عدالتی اداروں کے اس قدم کو “ایک اعلیٰ قانونی اور اخلاقی مثال” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ جو لوگ فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ اپنے عہدے یا اختیار کے باوجود انصاف سے نہیں بچ سکیں گے۔
واضح رہے کہ استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے ان وارنٹس میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، آرمی چیف ایال زامیر، اور اسرائیلی نیول فورسز کے کمانڈر ڈیوڈ ساعر سلاما شامل ہیں۔
یاد رہے کہ نومبر 2024 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملوں میں لگ بھگ 69 ہزار فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
یہ کارروائیاں اس وقت رکی تھیں جب 10 اکتوبر کو جنگ بندی معاہدہ نافذ ہوا۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔