انٹارکٹکا میں 65 سال بعد برطانوی کوہ پیما اور اس کے وفادار کتے کی باقیات برآمد
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
انٹارکٹکا کے ایک گلیشیئر کے پگھلنے سے 65 برس قبل لاپتا ہونے والے برطانوی کوہ پیما ڈینس ٹنک بیل اور اس کے برفانی کتے کی باقیات برآمد ہوگئی ہیں، جس نے ایک دہائیوں پرانی سائنسی اور انسانی کہانی کو اختتام تک پہنچا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوہستان کے برف پوش پہاڑوں سے حیرت انگیز خبر، 28 سال بعد برف سے لاش برآمد
1959 میں ڈینس ٹنک بیل صرف 25 برس کے تھے اور برٹش فالکنڈ آئی لینڈز ڈیپنڈنسیز سروے (جو آج برٹش انٹارکٹک سروے کہلاتا ہے) کے ساتھ موسمیات دان کی حیثیت سے انٹارکٹکا میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کا مشن برفانی موسم کی پیمائش، برف کی موٹائی کا تجزیہ اور علاقے کی جغرافیائی نقشہ بندی تھا۔
ڈینس کے ساتھ ان کا وفادار برفانی کتا بھی تھا، جو سلیج کھینچنے اور برفانی راستوں میں رہنمائی کے لیے تربیت یافتہ تھا۔ اس زمانے میں سلیج کتوں کا استعمال انٹارکٹک مہمات کا لازمی حصہ تھا، کیونکہ برفانی علاقوں میں مشینری اکثر ناکام ہوجاتی تھی۔
حادثے کا دنجنوری 1959 کی ایک دوپہر ڈینس اور ان کا کتا ایک موسمی مشن پر تھے جب اچانک برفانی شگاف (کریواس) کھل گیا۔ دونوں تقریباً 20 میٹر گہرائی میں جا گرے۔ شدید برفباری اور برفانی طوفان نے ریسکیو کو ناممکن بنا دیا۔ اس وقت کے ریسکیو ریکارڈز میں لکھا گیا کہ “ہم نے گھنٹوں کوشش کی لیکن نیچے اترنا ممکن نہ تھا اور موسم ہر لمحے خراب ہو رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 9 سال سے لاپتا کوہ پیماؤں کی باقیات کی تلاش میں تاخیر کیوں؟
اس حادثے کے بعد ڈینس اور ان کے کتے کو برف کے نیچے دفن کر دیا گیا اور آنے والے برسوں میں گلیشیئر نے اپنی سست لیکن مسلسل حرکت میں انہیں مزید اندر کی طرف کھسکا دیا۔
65 سال بعد دریافت2025 کے اوائل میں ایک پولش انٹارکٹک مہم “Arctowski Research Expedition” نے اس علاقے میں برفانی سروے کرتے ہوئے ایک گلیشیئر کے دہانے پر انسانی باقیات اور جانور کی ہڈیاں دریافت کیں۔ برف پگھلنے اور گلیشیئر کی حرکت نے دونوں کو سطح کے قریب لا دیا تھا۔
تحقیقات میں برآمد ہونے والی اشیا میں ڈینس کا اسٹیل کیس میں محفوظ ریڈیو سیٹ، ایک پرانی اینالاگ گھڑی جو وقت پر رکی ہوئی تھی، ایک پائپ اور تمباکو کا ڈبہ اور سلیج کتے کا چمڑے کا ہارنس اور پیتل کی گھنٹی شامل ہیں۔
کتاب میں ذکر اور تاریخی اہمیتڈینس ٹنک بیل کا ذکر بعد میں شائع ہونے والی کتاب Of Ice and Men میں بھی آیا تھا، جس میں انٹارکٹک مہمات کی مشکلات اور وہاں جان گنوانے والوں کی داستانیں شامل ہیں۔ کتاب میں ان کے کتے کا ذکر بطور “loyal companion” کیا گیا، جس نے آخری لمحے تک ساتھ نبھایا۔
خاندانی ردعملڈینس کے بڑے بھائی ڈیوڈ بیل نے کہا ’ہم نے برسوں پہلے اس حقیقت کو قبول کر لیا تھا کہ ڈینس واپس نہیں آئے گا، لیکن اب اس کی باقیات اور اس کے کتے کا ساتھ ملنا ہمارے لیے ایک عجیب سا سکون لایا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے دونوں ایک دوسرے کو کبھی چھوڑ کر نہ گئے ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: برطانوی کوہ پیما نے 19ویں بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی
برٹش انٹارکٹک سروے کی ڈائریکٹر ڈیم جین فرانسس نے کہا کہ ڈینس اور اس کے کتے کی کہانی نہ صرف انسانی حوصلے بلکہ انسان اور جانور کے درمیان ناقابلِ شکست رشتے کی یاد دہانی ہے۔ یہ دونوں انتہائی سخت حالات میں تحقیق کرنے والے ان ابتدائی مہم جوؤں کی علامت ہیں جنہوں نے آنے والے دور کی سائنسی کامیابیوں کی بنیاد رکھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انٹارکٹکا باقیات ڈینس ٹنک بی کوہ پیما گلیشیئر لاش.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹارکٹکا باقیات ڈینس ٹنک بی کوہ پیما گلیشیئر لاش کی باقیات اور اس کے کوہ پیما ڈینس ٹنک کے کتے
پڑھیں:
یورپ کے ایک دورافتادہ غار سے عالمی سطح پر سب سے بڑا مکڑی کا جال برآمد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس دانوں نے یورپ کے جنوبی حصے میں واقع ایک تاریک غار میں مکڑیوں کی ایک حیرت انگیز کالونی دریافت کی ہے، جسے دنیا کا سب سے بڑا مکڑی کا جال قرار دیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ سائنسی جریدے سب ٹیرینین بایولوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، یہ انوکھا جال ’’کیو آف سلفر‘‘ نامی غار میں پایا گیا ہے، جو 106 مربع میٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے اور ہزاروں قیف نما جالوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ جال دو مختلف اقسام کی مکڑیوں نے مل کر بنایا ہے، جنہیں عام طور پر گھریلو مکڑی کہا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عام طور پر ان میں سے ایک قسم کی مکڑی دوسری کو شکار بنا لیتی ہے، مگر غار میں یہ دونوں غیر معمولی طور پر پُرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ غار میں روشنی کی مکمل کمی مکڑیوں کی نظر کو متاثر کر رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دشمن یا شکار نہیں سمجھتیں۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ دونوں اقسام کی مکڑیاں غار میں موجود ایسی چھوٹی مکھیوں کو کھاتی ہیں جو سلفر پیدا کرنے والے بیکٹیریا کی سفید تہہ پر پلتی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ زمین کے اندرونی حصے اب بھی قدرت کے پوشیدہ کرشموں سے بھرپور ہیں، جنہیں انسان ابھی مکمل طور پر دریافت نہیں کر سکا۔