تعلیم اولین ترجیح، اپنے ٹاؤن کے تمام اسکولوں کو ماڈل اسکول بنائیں گے، منعم ظفر خان
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ صحت، تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں، شہر کراچی میں انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، اہل کراچی پانی، بجلی، گیس سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے محروم ہیں، اس کے باوجود یہ شہر پورے پاکستان کی معیشت چلاتا ہے، کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ تعلیم جماعت اسلامی کی اوّلین ترجیح ہے، اپنے 9 ٹاؤن کے تحت آنے والے تمام اسکولوں کو ماڈل اسکول بنائیں گے، پورے شہر میں الخدمت بنو قابل پروجیکٹ کے تحت آئی ٹی کورسز کا جال بچھا دیا ہے، ہزاروں بچے و بچیاں مفت آئی ٹی کورسز کر کے برسر روزگار ہو چکے ہیں، مختصر عرصے میں صرف لیاقت آباد ٹاؤن میں 9 اسکولوں کی تزئین و آرائش اور تعمیر ِ نو اور 16 پارکوں کو بحال و آباد کیا، علاقہ مکین ان اسکولوں میں داخلے کے لیے رابطے کر رہے ہیں، روڈ سائیڈ جنگل کے تصور کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، شجرکاری مہم تیزی سے جاری ہے، سندھ حکومت کا 631 ارب کا سالانہ بجٹ اگر نااہلی اور کرپشن کی نذر نہ ہو تو سندھ میں تعلیم کا بُرا حال نہیں ہوتا، حکومت اور ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے کیونکہ تعلیم ہی کے ذریعے ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لیاقت آباد ٹاؤن کے تحت یوسی 7میں نواب صدیق علی خان اور شبلی نعمانی کے نام سے منسوب اسکولوں کی تعمیر نو اور تزئین آرائش کے بعد افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ منعم ظفر خان نے مزید کہا کہ صحت، تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں، شہر کراچی میں انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، اہل کراچی پانی، بجلی، گیس سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے محروم ہیں، اس کے باوجود یہ شہر پورے پاکستان کی معیشت چلاتا ہے، کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بچوں کی جسمانی تربیت کو محفوظ کیسے بنائیں
بچوں کی نشوونما کے لیے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں۔ یہ مضبوط ہڈیوں اور پٹھوں کی تعمیر میں مدد کرتی ہیں،قلبی صحت کو بہتر بناتی ہیں۔جسمانی سرگرمی بچوں میں خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے یہ تناؤ اور اضطراب کے لیے ایک قدرتی راستہ ہے اس کے علاوہ جذباتی بہبود کو فروغ دیتی ہے۔
ایک ہی عمر کے بچوں کی مہارتیں اور ذہنی پختگی مختلف ہو سکتی ہیں۔ عام طور پر، وہ بچے اور نو عمر لڑکے لڑکیاں جو کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوں، وہ کسی نہ کسی قسم کی ورزش شروع کر سکتے ہیں۔ چھوٹے بچے وزن کے بغیر جسمانی وزن پر مبنی ورزشیں، جیسے کہ چھلانگیں لگانا، شروع کر سکتے ہیں۔
بچوں کے لیے جسمانی سرگرمیوں کی تربیت محفوظ ہے یا نہیں؟
بچوں کا طاقت بڑھانے کا پروگرام بڑوں کی ورزش کا چھوٹا ورژن نہیں ہونا چاہیے۔ بچوں کو درست طریقہ سیکھنا چاہیے، ان کی نگرانی کی جانی چاہیے، ان کے لیے مناسب سائز کے آلات ہونے چاہئیں، اور انہیں یہ سکھانا چاہیے کہ آلات کو محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے۔
اسکولوں، جم اور ویٹ رومز میں کام کرنے والے ٹرینرز تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور انھیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کس فورس کو کیسے استعمال کرنا ہے، مگر کوشش کریں کہ ایسا ماہر ملے جس کے پاس بچوں اور نو عمر افراد کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ اور باقاعدہ سرٹیفیکیشن ہو۔
اگر درست طریقے سے بچوں کو ورزش یعنی طاقت کی تربیت دی جائے تو وہ محفوظ ہوسکتی ہے اور بڑھتی ہڈیوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ اپنے بچے کو طاقت کی تربیت شروع کروانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ اگر بچے کو کچھ خاص طبی مسائل ہوں جیسے کہ قابو سے باہر ہائی بلڈ پریشر، مرگی،دل کی بیماریاں یا دیگر مسائل تو ڈاکٹر کی اجازت ضروری ہے۔
تربیت کے دوران حفاظت کے نکات:
بچوں کو قریبی نگرانی میں اور درست تکنیک کے ساتھ ورزش کروائی جائے۔
ویٹ یا کیٹل بیل اٹھانے سے پہلے بغیر وزن کے مشقیں کر کے تکنیک سیکھنی چاہیے۔
جب بچہ کسی مشق کو صحیح طریقے کے ساتھ آرام سے 8–12 بار کر سکے، تو وزن اٹھانے کے اوزار آہستہ آہستہ شامل کیے جا سکتے ہیں۔
بچوں کو بڑوں کے لیے بنے آلات ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔
زیادہ تر چوٹیں اس وقت ہوتی ہیں جب بچہ مذاق یا کھیل تماشے میں لگا ہو یا اس کی نگرانی نہ ہو۔ سب سے عام چوٹ پٹھوں کے کھچاؤ کی ہوتی ہے۔
طاقت بڑھانے کے لیے بچوں اور نو عمر افراد کو ہلکے وزن یا کم مزاحمت سے شروع کرنا چاہیے اور ایک یا دو سیٹ میں 8–12 بار ورزش کرنی چاہیے، نہ کہ بھاری وزن تھوڑے وقفوں کے ساتھ اٹھانا۔وزن بچے کی عمر، قد، تکنیک، تجربے اور جسمانی طاقت پر منحصر ہونا چاہیے۔اگر کوئی بچہ کسی وزن کو صحیح طریقے سے آٹھ بار نہیں اٹھا سکتا، تو وہ وزن اس کے لیے بہت زیادہ ہے۔
ایسے پروگرام منتخب کریں جہاں انسٹرکٹر بچوں پر مکمل توجہ دے سکے۔ چھوٹے بچوں کو زیادہ توجہ درکار ہوگی جبکہ تجربہ کار نوجوان کھلاڑی نسبتاً خود مختار ہو سکتے ہیں۔