صدر ایف پی سی سی آئی کی قوم کو 78 ویں یوم آزادی کی مبارکباد WhatsAppFacebookTwitter 0 14 August, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے قوم کو 78 ویں یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دن آزادی کے حصول کے لیے ہمارے آباو اجداد کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرامن اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان کا قیام تاریخ کا ایک بے مثل اور بے نظیر باب ہے۔ پاکستان کے لیے ان گنت قربانیاں دینے والے تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں، کارکنان اور اپنے آباو اجداد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ آپریشن بنیان مرصوص اور معرکہ حق میں تاریخی فتح نے اس مرتبہ آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا ہے، بھارت کے ساتھ جنگ نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔ ایف پی سی سی آئی سمیت ملک بھر کی بزنس کمیونٹی افواجِ پاکستان کی عظیم قربانیوں کی معترف ہے۔

انہوں نے کہا کہ معرکہ حق کے بعد اب ہمیں معاشی میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا ہے۔ آج کے دن ہم عہد کرتے ہیں کہ بہتر فیصلے کر کے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے، معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بن کر ہی ہم اصل آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرثابت قدم رہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، چیف جسٹس کا جشن آزادی پر پیغام ’’دو پہاڑوں‘‘کے تصور اور چین کی ماحولیاتی پالیسیوں پر عالمی سروے نتائج چین کا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر دنیا میں صف اول مقام پر ہے،نیشنل ڈیٹا ایڈمنسٹریشن پاکستان میں سری لنکا کے ہائی کمشنر کا ایف پی سی سی آئی کا دورہ، دو طرفہ تجارتی تعلقات پر تبادلہ خیال مسلسل دوسرے روز سونے کی قیمت میں کمی ، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟ برکینا فاسو پاکستان کیلئے افریقہ کی وسیع ترین مارکیٹ تک رسائی کا موثر ذریعہ بن سکتا ہے،عاطف اکرام شیخ چین کی جامع دیہی احیاء TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ایف پی سی سی ا ئی ا زادی کی قوم کو

پڑھیں:

پاکستان کا بھگت سنگھ حسن ناصر

میری نسل نے بھگت سنگھ کے قصے پڑھ کر جانا کہ سچائی اور جرات کیا ہوتی ہے۔ وہ حیدرآباد کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے اور حسن ناصر ناز و نعم میں پلے بڑھے تھے۔ انھوں نے کنونٹ سے تعلیم حاصل کی اور وہ زمانہ طالب علمی سے ہی مزدور تحریک سے نہ صرف وابستہ ہوگئے بلکہ انھوں نے اسے ہی اپنی حیات کا مقصد بنا لیا۔

 وہ کراچی آگئے اور انھوں نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ کراچی آکر اچھی ملازمت حاصل کرنا، ان کے لیے کوئی مشکل امر نہیں تھا مگر وہ اپنا تمام وقت مزدور تحریک پر صرف کرنے لگے اور اسی کو زندگی کا مقصد بنا لیا۔ وہ اس سرزمین کا ’’بھگت سنگھ‘‘ بن گیا۔ اس کی للکار اس کی نظریاتی استقامت سب کچھ اس دھرتی کے نام ہوئی، جس کے مزدوروں اور کسانوں کو وہ جبرکی زنجیروں سے آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔

وہ قید خانوں سے بھی خوفزدہ نہ ہوا، اس کی آنکھوں میں انقلاب کی چمک تھی۔ اس کے خواب بڑے تھے، طبقاتی برابری کے انسان کی حرمت کے استحصال کے خاتمے کے۔ وہ کسی حال اور قیمت پر اپنے خوابوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ ایک ایسا سماج جہاں مزدورکو اس کا حق ملے جہاں کسان مجبور اور لاچار نہ ہو۔ وہ ایک ایسے سماج کا خواب دیکھتا تھا۔ جو جرات اور جی داری حسن ناصر کے مزاج میں تھی، وہ دوسروں کو حوصلہ دیتی تھی۔ خواب دیکھنے کا اپنے حق کے لیے لڑ جانے کا اور مٹ جانے کا اور آخری سانس تک اپنے اصولوں کے لیے ڈٹے رہنے کا۔

حسن ناصر اس وقت بھی اور آج بھی انقلاب اور جدوجہد کا وہ نام ہے جس پر جتنا ناز کیا جائے وہ کم ہے۔ آج پاکستان کے جو حالات ہیں اس میں حسن ناصر جیسے نڈر اور جیالے انسان کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ حکومت مزدور کارکنوں کو غدار، وطن دشمن، ملحد اور بیرونی ایجنٹ تصور کرتی تھی مگر اس کا حقیقت سے رتی برابر بھی تعلق نہیں تھا۔ آٹھ اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔

ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے جب کہ صدارت اسکندر مرزا کے پاس ہی رہی۔ ملک کا آئین منسوخ کردیا گیا۔ سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ بائیں بازوکے سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ بہت سے کارکن گرفتار ہوئے اورکچھ روپوش ہوگئے۔ حسن ناصر بھی روپوش ہوگئے مگر ساتھیوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ جب ایوب خان کی مارشل لاء حکومت اپنے مخالفوں کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی، تب حسن ناصر اس دلیر قافلے کی پہلی صف میں کھڑا تھا۔

1959 میں ملک گیر انتخابات کرائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت بائیں بازو کی قوت میں اضافہ ہونے کے امکانات بہت واضح تھے۔ روپوشی کے دوران بھی وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے تھے، کبھی کسی ساتھی سے ملنے پہنچ جاتے تو کبھی کسی کو ملاقات کے لیے پیغام بھجواتے۔

اگست کے مہینے میں ان کو گرفتار کر لیا گیا اور قید کرکے لاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا گیا۔ حسن ناصر پر جو تشدد کیا گیا، اس کو لکھتے ہوئے لکھنے والے کے ہاتھ کانپ جائیں مگر حسن ناصر نے بہادری کی وہ مثال قائم کی کہ جو صرف وہی کرسکتا ہے جس کے دل میں مزدور اور کسان کی محبت ہو جو ایک ایسے سماج کا خواب دیکھتا ہو جہاں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو، جہاں بھوک نہ ہو۔ حسن ناصر نے اپنے نظریہ اور سوچ کے لیے جان کی پروا بھی نہیں کی۔ جس عمر میں نوجوان زندگی کی محبت لیے جیتے ہیں، اس نے اس عمر میں موت کو ہنستے ہنستے گلے لگا لیا۔

13 نومبر 1960 کو یہ خبر آئی کہ حسن ناصر نے خود کشی کر لی۔ حسن ناصر کی موت کی خبر نے اس کے ساتھیوں کو توڑ دیا، وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس طرح کال کوٹھری میں وہ بہادر حسن ناصرکو یوں موت کی نیند سلا دیں گے۔ نہتے حسن ناصر سے وہ اتنا ڈرے کہ اس کی جان لینے کے بعد اس کی موت کو خودکشی کا رنگ دے دیا۔

اس کی ماں نے کبھی سوچا نہ ہوگا کہ اس کا بیٹا لاہور کے قلعے کی تاریکی میں دفن کر دیا جائے گا۔ حسن ناصرکی والدہ ہندوستان سے تشریف لائیں اور انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کو اپنے بیٹے کی لاش ہندوستان لے جاکر دفنانے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے ان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے لاش کو قبر سے نکالنے کے احکامات جاری کیے۔ لاش کی برآمدگی کے بعد یہ سوال ضرور اٹھتا کہ حسن ناصر پر تشدد کیا گیا اور اس طرح پولیس کی قلعی کھل جاتی۔ جب ایک مسخ شدہ لاش حسن ناصر کی والدہ کو یہ کہہ کر دکھائی گئی کہ یہ حسن ناصر کی لاش ہے تو انھوں نے اسے حسن ناصر کی لاش ماننے سے انکارکردیا۔ یوں وہ لاش دوبارہ دفنا دی گئی اور اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کس طرح پولیس نے اپنے جرم کی پردہ پوشی کی۔

 یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے کہ حسن ناصرکی والدہ پر کیا گزری ہوگی، پہلے تو کڑیل جوان بیٹے کی موت کا صدمہ اور اس کے بعد وہ نہ بیٹے کو آخری بار دیکھ سکیں، نہ اس کو دفنانے ہندوستان لے جاسکیں۔ اس ماں کے دکھ کا تصورکر کے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

حسن ناصر کے گرفتار ساتھیوں نے جیل میں بیانات دیے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پر جو ظلم ہوا وہ حسن ناصر پر بھی ہوا ہوگا بلکہ اس سے بھی زیادہ تشدد کیا گیا ہوگا، جو ہم پہ ہوا۔ وہ تو انتہائی نفیس طبیعت کا ملک انسان تھا وہ دبلا پتلا سا تھا مگر اس کا حوصلہ بہت بلند تھا، وہ فولادی ارادوں کا مالک تھا۔حسن ناصر کے جسم کو قید کیا گیا، مٹی کے نیچے چھپا دیا گیا مگر اس کی سوچ کو دنیا کی کوئی جیل، کوئی لاٹھی، کوئی شکنجہ قید نہ کر سکا۔ وہ نظریہ جو اس نے پیش کیا، اب بے شمار دلوں میں دھڑکتا ہے، مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے دلوں میں۔بھگت سنگھ نے لالہ لاجپت رائے کے قتل پر سچ کی چنگاری جلائی تھی۔ حسن ناصر نے اس دھرتی پر بھوک، غربت اور آمریت کے خلاف وہی چنگاری روشن کی۔ دونوں کی قربانیوں میں ایک ہی رنگ دکھائی دیتا ہے، انسانیت کی آزادی کا رنگ۔

آج جب پاکستان کے نوجوان اس کی تصویرکو دیکھتے ہیں تو شاید سمجھ نہ پائیں کہ وہ دبلا پتلا لڑکا کس طرح ایک ریاست کے سامنے دیوار بن کرکھڑا تھا، مگر جو قومیں اپنے سچ بولنے والوں کو بھول جائیں وہ اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر حسن ناصر آج کے پاکستان میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ اسے شاید پھرگرفتار کر لیا جاتا، پھر ’’غدار‘‘ کہا جاتا، پھر اس کا نظریہ بدنام کیا جاتا، مگر شاید ایک فرق ہوتا ،آج اس کی آواز دبانا اتنا آسان نہ ہوتا۔ آج اس کی چیخیں لاہور قلعے کی دیواروں میں گم نہ ہوتیں، وہ پورے ملک میں ہر اس گھر میں، ہر اس بستی میں سنائی دیتیں، جہاں آج بھی کوئی مزدور اپنے بچے کو بھوکا سوتے دیکھ کر آنسو بہاتا ہے۔

پاکستان کے اس ’’بھگت سنگھ‘‘ کی زندگی مختصر تھی مگر وہ تاریخ میں اپنا نام کندہ کرگیا۔ اس کا خون قلعے کی اینٹوں میں جذب ہوا مگر اس کی فکر ہواؤں میں آج بھی زندہ ہے۔ اس کی قبر بے نشان سہی، مگر اس کی قربانی نشانِ راہ ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا انصاف یہ ہے کہ سچ لکھا جائے۔ حسن ناصرکا سچ یہ ہے کہ وہ ایک عام نوجوان نہیں تھا۔ وہ خواب دیکھتا تھا، ایک پرامن دنیا کا، ایک ایسی دنیا کا جہاں انصاف سب کے لیے ہو۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا بھگت سنگھ حسن ناصر
  • ناصر حسین شاہ نے فیصل راٹھور کو آزاد کشمیر کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد
  • وزیراعظم شہباز شریف کا آزاد کشمیر کے نو منتحب وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطہ, مبارکباد دی
  • شہباز شریف کا نومنتخب وزیراعظم آزادکشمیر سے رابطہ، دلی مبارکباد پیش
  • شہباز شریف کی راجہ فیصل ممتاز کو وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب ہونے پر دلی مبارکباد
  • پاکستان شاہینز کی جیت نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا، محسن نقوی
  • سری لنکا کیخلاف سیریز جیتنے پر وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے قومی ٹیم کو مبارکباد
  • اسپیکر قومی اور گورنر سندھ کی قومی ٹیم کو سیریز جیتنے پر مبارکباد
  • وزیراعظم، چیئرمین پی سی بی اور وزیراعلیٰ سندھ کی قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار کامیابی پر تہنیتی پیغامات
  • پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن ہے: محسن نقوی کی بھارت کو شکست دینے پر پاکستان شاہینز کو مبارکباد