Islam Times:
2025-10-04@16:57:34 GMT

لبنان میں داخلی جنگ کے گہرے بادل

اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT

لبنان میں داخلی جنگ کے گہرے بادل

اسلام ٹائمز: حزب اللہ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دہائیوں میں لبنان پر بارہا حملہ کیا ہے، لبنان کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا ہے اور یہاں تک کہ دارالحکومت پر بمباری بھی کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مسلح مزاحمت کی تشکیل کے بعد ہی یہ حملے رکے اور اسرائیل کو بھاری قیمت اور جانی نقصان اٹھان پڑا اور بالآخر حزب اللہ کی وجہ سے 2000ء میں جنوبی لبنان پر قبضہ ختم ہوا۔ اسلامی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اصل رکاوٹ حزب اللہ کے ہتھیار اور آپریشنل صلاحیتیں ہیں، نہ کہ بین الاقوامی قراردادیں یا اقوام متحدہ کے وعدے اور امیدیں۔ تحریر: رضا دھقانی

لبنان کے وزیر اعظم نواف سلام نے سعودی اخبار الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے فیصلہ کن اور جارحانہ الفاظ خانہ جنگی کے خطرات کو نمایاں کررہے ہیں۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے امریکی صہیونی منصوبے کے ردعمل میں کہا ہے "مزاحمت اپنے ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی، جارحیت جاری ہے اور قابض اب بھی موجود ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم کربلا کی طرز پر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کریں گے اور یہ جنگ ہم جیتیں گے۔"

نواف سلام نے اپنی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ لبنانی حکومت امریکی اسرائیلی منصوبے پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا "ہمارے فیصلے مکمل طور پر لبنانی ہیں، وہ وزراء کی کونسل میں کیے جاتے ہیں اور کوئی ہمیں باہر سے ان کا حکم نہیں دیتا۔" یہ دعویٰ اس حقیقت کے باوجود سامنے آیا ہے کہ لبنانی وزراء کونسل کی قرارداد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھیجے گئے خصوصی نمائندے "ٹام بارک" کے منصوبے کے موصول ہونے کے بعد منظور کی گئی تھی، یہ منصوبہ جس کی بنیادی شق "حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے" سے متعلق تھی۔

مذکورہ بالا اہم نکتہ ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے دو روز قبل بیروت کے دورے کے دوران اپنی تقریر میں بھی بیان کیا تھا۔ انھوں نے کہا ہے "ہم لبنان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں لائے بلکہ امریکی آپ کے لیے ایک منصوبہ لائے تھے۔ ہم کہتے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں، ہم لبنان کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرتے۔"

"ہتھیاروں پر حکومت کی اجارہ داری" کے مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے لبنانی وزیراعظم نے مزید کہا ہے کہ "یہ مسئلہ طائف معاہدے میں اٹھایا گیا ہے اور یہ معاہدے کا ایک اہم اصول ہے۔ ہم سب نے طائف میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ لبنانی حکومت کو اپنی طاقت کے ساتھ ملک کے پورے علاقے پر خودمختاری کا استعمال کرنا چاہیئے، لیکن ہم نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں تاخیر کی ہے۔"

نواف سلام نے مزید کہا ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ حزب اللہ کے ہتھیار اسرائیلی دشمن کے حوالے کیے جائیں، بلکہ لبنانی فوج کے حوالے کیے جائیں گے، جس کی حب الوطنی بلاشک و شبہ ہے۔" حزب اللہ اپنے ہتھیار لبنانی فوج کے حوالے کیوں نہیں کرتی؟ حزب اللہ نے بارہا کہا ہے کہ فوج اور مزاحمت کے اختلاف کو مسترد کرتے ہیں اور یہ کہ "فوج"، "قوم" اور "مزاحمت" تینوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

لبنانی فوج کو ہتھیار نہ دینے کی تین اہم وجوہات:
پہلی اور اہم دلیل یہ ہے کہ لبنانی فوج اپنی افواج کی حب الوطنی اور قربانیوں کے باوجود ہتھیاروں اور مالیات کے معاملے میں بہت زیادہ غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ یہ امداد بنیادی طور پر امریکہ اور بعض مغربی ممالک فراہم کرتے ہیں جن کی پالیسیاں واضح طور پر اسرائیلی مفادات کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں حزب اللہ کا خیال ہے کہ اگر حزب اللہ کے ہتھیار مکمل طور پر لبنانی فوج کے حوالے کر دیئے جائیں تو سیاسی دباؤ اور غیر ملکی عطیہ دہندگان کی شرائط کی وجہ سے یہ فوج نازک لمحات میں اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت حتیٰ اسکے خلاف مقابلہ کی اجازت حاصل نہیں کر پائے گی۔

دوسری دلیل لبنان کے تاریخی تجربے سے متعلق ہے۔ حزب اللہ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دہائیوں میں لبنان پر بارہا حملہ کیا ہے، لبنان کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا ہے اور یہاں تک کہ دارالحکومت پر بمباری بھی کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مسلح مزاحمت کی تشکیل کے بعد ہی یہ حملے رکے اور اسرائیل کو بھاری قیمت اور جانی نقصان اٹھان پڑا اور بالآخر حزب اللہ کی وجہ سے 2000ء میں جنوبی لبنان پر قبضہ ختم ہوا۔ اسلامی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اصل رکاوٹ حزب اللہ کے ہتھیار اور آپریشنل صلاحیتیں ہیں، نہ کہ بین الاقوامی قراردادیں یا اقوام متحدہ کے وعدے اور امیدیں۔ 

تیسری دلیل موجودہ خطرات کی نوعیت سے متعلق ہے۔ حزب اللہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسرائیل اس وقت بھی لبنانی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے جن میں شیبہ فارمز اور کفر شوبہ کی پہاڑیوں شامل ہیں۔ اسرائیل اب بھی کبھی کبھار لبنان کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ حزب اللہ کے لیے ایسی صورت حال اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا مطلب لبنان کو ان دشمنوں کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کے مترادف ہو گا۔ دنیا جانتی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت نہ عالمی قوانین کو مانتی ہے نہ عالمی رائے عامہ کو اہمیت دیتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حزب اللہ کے ہتھیار بین الاقوامی لبنانی فوج کہ لبنانی لبنان کے کے حوالے نہیں کر کہا ہے اور یہ کیا ہے ہے اور

پڑھیں:

اہل یمن کا اپنے محسن سید حسن نصر اللہ شہید کو خراج تحسین

اسلام ٹائمز: انصار اللہ کے قائدین میں سے ایک خالد المدنی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ یمنی عوام کی حمایت میں اٹھنے والی ایک طاقتور آواز تھے،انہوں نے ہمیشہ یمنی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بارے میں بات کی اور یمن کے خلاف امریکہ، صیہونی حکومت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مشترکہ جارحیت پر سخت موقف اختیار کیا، وہ پوری قوت کے ساتھ ہماری حمایت کے لئے موجود تھے۔ خصوصی رپورٹ:

یمن کے شہر صنعاء میں لبنان کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر یمنی عوام نے رہبر مقاومت کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور یمنی حکومت اور عوام کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت کو سراہا ہے۔ اگرچہ سید حسن نصر اللہ لبنان میں شہید ہوئے، لیکن یمن کے مظلوم اور مزاحمتی عوام نے بھی ان کی شہادت پر سوگ منایا اور ماتمی لباس زیب تن کیے۔ یمن کی حکومت اور عوام 2015 میں سعودی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کے حملے کے آغاز سے لے کر اب تک یمن کے عوام کے لیے حزب اللہ اور سید حسن نصر اللہ کی مسلسل حمایت اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے تسلسل کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کو فرنٹ لائن اور ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

صنعاء کے مبارز اور مجاہد عوام اسلامی ممالک کے خلاف دشمنوں کی جارحیت کے دائرہ کار میں توسیع کو اس دانشمند اور دلیر لیڈر کی عدم موجودگی کا ایک نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں یمن کے میڈیا کے قائم مقام وزیر توفیق الحمیری نے خبررساں ادارےتسنیم کے ساتھ انٹرویو میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ یہ امت کے عظیم رہنما کی شہادت کی پہلی برسی ہے، سید حسن وہ پہلا مورچہ تھے جو صہیونیوں کے خلاف رکاوٹ بنا،جس نے "نئے مشرق وسطیٰ" نامی منصوبے کو آگے بڑھانے سے انہیں روکا، ہم یمنی قوم کے سید حسن نصر اللہ کے ساتھ تعلق سے پوری طرح واقف ہیں، شہید صیہونیوں کے خلاف ہماری لڑائی میں بھی حصہ دار تھے۔
نوجوان اور کھیل کے قائم مقام وزیر علی حسین حزبان نے بھی ایک مختصرگفتگو میں خطے میں امریکی صہیونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قائد مزاحمت کی انتھک کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت نے قوم کو اپنی ناقابل تسخیر سایہ سے محروم کر دیا اور شام میں اسرائیل اور امریکی سازشوں کیخلاف مقاومت کو بھی نقصان پہنچا۔
ان کی شہادت کے بعد خطے میں ہونے والی پیش رفت نے ثابت کر دیا کہ سید حسن نصر اللہ امریکہ، اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبوں کے سامنے ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ اور ایک مضبوط قلعہ تھے۔ یمن میں اس سانحہ کو بہت بڑا نقصان سمجھا جاتا ہے۔ یمنی عوام کی سید حسن نصر اللہ سے پہلے بھی عقیدت تھی لیکن جب یمنی عوام 2015 میں اس ملک پر بین الاقوامی اتحاد کے حملے کے سامنے تنہارہ گئے تھے، تو شہید حسن نصر اللہ جارحیت شروع ہونے کے ایک رات بعد ایرانی اسلامی مزاحمتی مجاہدین کی مدد سے یمنی عوام کی مدد کے لیے وارد ہو گئے تھے۔ ان دنوں جب کہ یمنی عوام کی اکثریت آپ کی شہادت پر سوگ منا رہی ہے، اس عظیم دکھ کی تسکین سید عبدالملک الحوثی کی موجودگی ہے، جو اس ملک میں مزاحمت کا پرچم تھامے ہوئے، ملت اسلامیہ کا دفاع کر رہے ہیں۔
یمن کی عبوری کونسل کے رکن کرنل یحییٰ المہدی نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی شہادت پر یمنیوں کے غم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ  یمن میں ہمارا مزاج لبنان میں اپنے بھائیوں جیسا ہے، ہم شہید انسانیت و شہید  اسلام سید حسن اللہ کے نقصان پر ان سے بھی زیادہ غمزدہ اور غمگین  ہیں،وہ  یمن پر جارحیت کے دوران یمنیوں کےمددگار، حامی اور سرپرست تھے۔

سید حسن نصر اللہ کو یمنی عوام میں ایک عام آدمی نہیں سمجھا جاتا ہے، بلکہ ایک ایسی سوچ سمجھا جاتا ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ ان دنوں قطر کے شہر دوحہ پر صیہونی حکومت کے  حملے کے بعد عرب دنیا کے حکمرانوں میں سے شہید مقاومت کے دشمن بھی ان کی جدائی اور نقصان کو ان کے حامیوں سے زیادہ محسوس کر رہے ہیں اور وہ اپنی سرزمینوں کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کو سید حسن نصرا للہ کی شہادت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

 انصار اللہ کے قائدین میں سے ایک خالد المدنی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ یمنی عوام کی حمایت میں اٹھنے والی ایک طاقتور آواز تھے،انہوں نے ہمیشہ یمنی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بارے میں بات کی اور یمن کے خلاف امریکہ، صیہونی حکومت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مشترکہ جارحیت پر سخت موقف اختیار کیا، وہ  پوری قوت کے ساتھ ہماری حمایت کے لئے موجود تھے۔

یمنی عوام سید حسن نصر اللہ کی فلسطینی عوام کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے جو بالآخر اس مقصد میں ان کی شہادت پر منتج ہوئی۔ صیہونی دشمن کے ساتھ مقابلے میں شاید سب سے بڑا نقصان اور سب سے بڑی قربانی سید حسن نصر اللہ کی شہادت تھی۔ سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی برسی کے موقع پر یمنی اپنے عہد وفاپر قائم ہیں اور مظلوموں کی حمایت اور عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لیے "سید وفا" کے ساتھ اپنا راستہ جاری رکھنے کی تجدید عہد کرتے ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • اہل عراق کا اپنے محسن شہید سید حسن نصر اللہ سے تجدید عہد
  • ملکی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کیلئے لبنانی فوج و سکیورٹی فورسز کو 230 ملین ڈالر کی امریکی امداد
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • حفاظتِ نظر کا انعام
  • خطبہٴ نکاح کا پیغام
  • اہل یمن کا اپنے محسن سید حسن نصر اللہ شہید کو خراج تحسین
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں: رانا ثناء اللہ
  • حزب اللہ کے شہید کمانڈر الحاج جہاد کی تصاویر
  • ماہی گیروں کو 3اکتوبر تک گہرے سمندر میں نہ جانے کی ہدایت