Islam Times:
2025-08-16@20:17:05 GMT

لبنان میں داخلی جنگ کے گہرے بادل

اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT

لبنان میں داخلی جنگ کے گہرے بادل

اسلام ٹائمز: حزب اللہ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دہائیوں میں لبنان پر بارہا حملہ کیا ہے، لبنان کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا ہے اور یہاں تک کہ دارالحکومت پر بمباری بھی کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مسلح مزاحمت کی تشکیل کے بعد ہی یہ حملے رکے اور اسرائیل کو بھاری قیمت اور جانی نقصان اٹھان پڑا اور بالآخر حزب اللہ کی وجہ سے 2000ء میں جنوبی لبنان پر قبضہ ختم ہوا۔ اسلامی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اصل رکاوٹ حزب اللہ کے ہتھیار اور آپریشنل صلاحیتیں ہیں، نہ کہ بین الاقوامی قراردادیں یا اقوام متحدہ کے وعدے اور امیدیں۔ تحریر: رضا دھقانی

لبنان کے وزیر اعظم نواف سلام نے سعودی اخبار الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے فیصلہ کن اور جارحانہ الفاظ خانہ جنگی کے خطرات کو نمایاں کررہے ہیں۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے امریکی صہیونی منصوبے کے ردعمل میں کہا ہے "مزاحمت اپنے ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی، جارحیت جاری ہے اور قابض اب بھی موجود ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم کربلا کی طرز پر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کریں گے اور یہ جنگ ہم جیتیں گے۔"

نواف سلام نے اپنی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ لبنانی حکومت امریکی اسرائیلی منصوبے پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا "ہمارے فیصلے مکمل طور پر لبنانی ہیں، وہ وزراء کی کونسل میں کیے جاتے ہیں اور کوئی ہمیں باہر سے ان کا حکم نہیں دیتا۔" یہ دعویٰ اس حقیقت کے باوجود سامنے آیا ہے کہ لبنانی وزراء کونسل کی قرارداد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھیجے گئے خصوصی نمائندے "ٹام بارک" کے منصوبے کے موصول ہونے کے بعد منظور کی گئی تھی، یہ منصوبہ جس کی بنیادی شق "حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے" سے متعلق تھی۔

مذکورہ بالا اہم نکتہ ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے دو روز قبل بیروت کے دورے کے دوران اپنی تقریر میں بھی بیان کیا تھا۔ انھوں نے کہا ہے "ہم لبنان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں لائے بلکہ امریکی آپ کے لیے ایک منصوبہ لائے تھے۔ ہم کہتے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں، ہم لبنان کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرتے۔"

"ہتھیاروں پر حکومت کی اجارہ داری" کے مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے لبنانی وزیراعظم نے مزید کہا ہے کہ "یہ مسئلہ طائف معاہدے میں اٹھایا گیا ہے اور یہ معاہدے کا ایک اہم اصول ہے۔ ہم سب نے طائف میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ لبنانی حکومت کو اپنی طاقت کے ساتھ ملک کے پورے علاقے پر خودمختاری کا استعمال کرنا چاہیئے، لیکن ہم نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں تاخیر کی ہے۔"

نواف سلام نے مزید کہا ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ حزب اللہ کے ہتھیار اسرائیلی دشمن کے حوالے کیے جائیں، بلکہ لبنانی فوج کے حوالے کیے جائیں گے، جس کی حب الوطنی بلاشک و شبہ ہے۔" حزب اللہ اپنے ہتھیار لبنانی فوج کے حوالے کیوں نہیں کرتی؟ حزب اللہ نے بارہا کہا ہے کہ فوج اور مزاحمت کے اختلاف کو مسترد کرتے ہیں اور یہ کہ "فوج"، "قوم" اور "مزاحمت" تینوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

لبنانی فوج کو ہتھیار نہ دینے کی تین اہم وجوہات:
پہلی اور اہم دلیل یہ ہے کہ لبنانی فوج اپنی افواج کی حب الوطنی اور قربانیوں کے باوجود ہتھیاروں اور مالیات کے معاملے میں بہت زیادہ غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ یہ امداد بنیادی طور پر امریکہ اور بعض مغربی ممالک فراہم کرتے ہیں جن کی پالیسیاں واضح طور پر اسرائیلی مفادات کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں حزب اللہ کا خیال ہے کہ اگر حزب اللہ کے ہتھیار مکمل طور پر لبنانی فوج کے حوالے کر دیئے جائیں تو سیاسی دباؤ اور غیر ملکی عطیہ دہندگان کی شرائط کی وجہ سے یہ فوج نازک لمحات میں اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت حتیٰ اسکے خلاف مقابلہ کی اجازت حاصل نہیں کر پائے گی۔

دوسری دلیل لبنان کے تاریخی تجربے سے متعلق ہے۔ حزب اللہ نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دہائیوں میں لبنان پر بارہا حملہ کیا ہے، لبنان کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا ہے اور یہاں تک کہ دارالحکومت پر بمباری بھی کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مسلح مزاحمت کی تشکیل کے بعد ہی یہ حملے رکے اور اسرائیل کو بھاری قیمت اور جانی نقصان اٹھان پڑا اور بالآخر حزب اللہ کی وجہ سے 2000ء میں جنوبی لبنان پر قبضہ ختم ہوا۔ اسلامی مزاحمت کے نقطہ نظر سے، اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اصل رکاوٹ حزب اللہ کے ہتھیار اور آپریشنل صلاحیتیں ہیں، نہ کہ بین الاقوامی قراردادیں یا اقوام متحدہ کے وعدے اور امیدیں۔ 

تیسری دلیل موجودہ خطرات کی نوعیت سے متعلق ہے۔ حزب اللہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسرائیل اس وقت بھی لبنانی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے جن میں شیبہ فارمز اور کفر شوبہ کی پہاڑیوں شامل ہیں۔ اسرائیل اب بھی کبھی کبھار لبنان کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ حزب اللہ کے لیے ایسی صورت حال اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا مطلب لبنان کو ان دشمنوں کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کے مترادف ہو گا۔ دنیا جانتی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت نہ عالمی قوانین کو مانتی ہے نہ عالمی رائے عامہ کو اہمیت دیتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حزب اللہ کے ہتھیار بین الاقوامی لبنانی فوج کہ لبنانی لبنان کے کے حوالے نہیں کر کہا ہے اور یہ کیا ہے ہے اور

پڑھیں:

وزیراعلیٰ کا کوڑے کے ملبے تلے دب کر دو بچوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و صدمہ کا اظیہار

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اگست2025ء)وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کوڑے کے ملبے تلے دب کر دو بچوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و صدمہ کا اظہار کیاہے۔

(جاری ہے)

وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی ا ور تعزیت کااظہار کیا ہے۔وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ معصوم بچوں کا جاں بحق ہونا انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ایسا واقعہ معاشرتی المیہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنے والاہے؟
  • دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ہمیں کوئی خوف نہیں، حزب اللہ لبنان
  • وزیراعلیٰ کا کوڑے کے ملبے تلے دب کر دو بچوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و صدمہ کا اظیہار
  • امریکا کے کہنے پر ہمیں غیر مسلح کیا تو لبنان تباہ ہوجائے گا؛ سربراہ حزب اللہ
  • لبنانی حکومت اسرائیلی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے، شیخ نعیم قاسم
  • استقامتی محاذ کی حمایت کے لئے ہم ایران کے شکر گذار ہیں، شیخ نعیم قاسم
  • جموں و کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں بادل پھٹنے کا قہر، 30 افراد ہلاک
  • اسلامی مزاحمت مسلح باقی رہے گی، رہنما حزب اللہ لبنان
  • پاکستان صرف امت نہیں بلکہ دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کا ترجمان ہوگا، حافظ نعیم