مائیکروسوفٹ کے اسرائیل سے تعلقات کے خلاف موجودہ اور سابق ملازمین کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
واشنگٹن:
مائیکروسوفٹ کے موجودہ اور سابق ملازمین کے ایک گروپ نے کمپنی کے غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے ساتھ تعلقات کے خلاف واشنگٹن میں واقع ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کیا۔
خبرایجنسی انادولو کی رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی فوج کے ساتھ مائیکروسوفٹ کے تعلقات پر کمپنی کے موجودہ اور سابقہ ملازمین نے احتجاج کیا، جو مائیکروسوفٹ کے فلیگ شپ کلاؤڈ کمپیوٹنگ سروس ایزور کے نام سے تخلیق پانے والے گروپ ‘نو ایزور فار اپارتھیڈ’ کے زیرانتظام ہوا۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین بلڈنگ نمبر 34 میں مائیکروسوفٹ کے صدر براڈ اسمتھ کے دفتر کے اندر جمع ہوئے جہاں انہوں نے نعرے بازی کی اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔
ایک بینر پر لکھا گیا تھا کہ غزہ میں 2023 کے دوران اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے سوفٹ ویئر انجینئر سے منسوب کرتے ہوئے دفتر کا نام ‘مائی عبید بلڈنگ’ رکھا جائے۔
دوسرے بینر کے ذریعے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مائیکروسوفٹ اسرائیل سے تعلقات منقطع کرے اور دیگر کئی مطالبات بھی کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے احتجاج کرنے والے گروپ میں سے 7 افراد کو گرفتار کرلیا جو مائیکروسوفٹ کے صدر براڈ اسمتھ کے دفتر میں داخل ہوئے تھے۔
قبل ازیں بلومبرگ نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ مائیکروسوفٹ کو محدود مگر شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور زور دے رہے ہیں کہ وہ غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات منقطع کریں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مائیکروسوفٹ نے مظاہرین کو کچلنے کے لیے ایف بی آئی اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد طلب کی ہے۔
مائیکروسوفٹ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی یونٹ 8200 فلسطینیوں کے فون کالز کی ریکارڈنگ محفوظ کرنے کے لیے مائیکروسوفٹ ایزور کا استعمال کر رہی ہے۔
رواں برس کے شروع میں امریکی خبرایجنسی نے انکشاف کیا تھا کہ مائیکروسوفٹ کی اسرائیل کی وزارت دفاع سے شراکت داری ہے جس کا مقصد اہداف کی نشان دہی کے لیے خفیہ معلومات جمع کرنا ہے۔
مائیکروسوفٹ نے مذکورہ رپورٹ کے بعد بتایا تھا کہ داخلی جائزے کے بعد اس طرح کے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ ایزور یا اے آئی ٹیکنالوجیز کو غزہ میں شہریوں کو نقصان پہنچانے یا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔
کمپنی اپنی جائزہ رپورٹ تو جاری نہیں کی تھی لیکن بتایا تھا کہ جب مزید جائزہ مکمل ہوگا تو حقائق پر مبنی رپورٹ جاری کردی جائے گی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ جنگ میں اکتوبر 2023 سے اب تک 63 ہزار فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، لاکھوں فلسطینی بے گھر اور زخمی ہیں اور غزہ میں غذائی قلت کی وجہ سے قحط کی صورت حال ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں بتایا کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
اسرائیل غزہ میں منظم طریقے سے بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے: غیرملکی ڈاکٹرز
غیر ملکی ڈاکٹرز نے عالمی میڈیا کو بتایا ہے کہ اسرائیلی فورسز غزہ میں منظم انداز میں بچوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق 17 میں سے 15 غیرملکی ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر 15 سال سے کم عمر بچوں کو سر یا سینے پر گولی مار کر زخمی کیا۔
ان غیرملکی ڈاکٹرز نے 114 ایسے بچوں کی نشاندہی کی جن کا علاج انہوں نے غزہ میں رضاکارانہ مشنز کے دوران کیا، اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنے والے ان بچوں میں سے بیشتر بچے بچ نہیں سکے اور شہید ہوگئے، تاہم ان میں سے کچھ بچوں کی زندگیوں کو بچالیا گیا۔
امریکی ایمرجنسی ڈاکٹر میمی سید نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ کا نشانہ بنانے کے واقعات اتفاقی گولیوں کے تبادلے میں نہیں ہوئے بلکہ یہ جنگی جرائم ہیں۔
ڈاکٹر میمی سید نے ایسے 18 بچوں کی نشاندہی کی جنہیں سر یا سینے پر گولی ماری گئی تھی۔
کیلیفورنیا میں ٹراما سرجن فیروز سدھوا نے بتایا کہ انہوں نے ایک ہی اسپتال میں ایسے بچوں کے کئی کیسز کا مشاہدہ کیا جنہیں تمام گولیاں سر میں ماری گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے یہ معاملہ دوسرے غیر ملکی ڈاکٹرز کو بتایا تو معلوم ہوا یہ تو باقاعدہ نشانے بازی کی گئی ہے۔
فارنزک پیتھالوجسٹ نے غیرملکی میڈیا کو بتایا کہ ایکس رے رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ متاثرہ بچوں کو لگنے والے زخم دور سے کسی ماہر نشانے باز یا ڈرون کی فائرنگ سے لگے ہیں۔
سابق ڈچ فوجی کمانڈر مارٹ ڈی کروف نے بتایا کہ ’وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسے بچوں کے، جن کے سر اور چھاتی کو گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، معاملات کو حادثات کیوں قرار دیا جارہا ہے‘۔
Post Views: 4