بچوں میں خود سری اور باغیانہ پن کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
والدین بننا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا یقیناً ایک خوش کن لیکن مشکل تجربہ ہے ۔ خاص کر جب بچے بڑے ہورہے ہوتے ہیں ایسے میں ان کی تربیت کر نا اور انھیں تمیزدار بنانا ان کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل کو سمجھنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔
اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیںکہ ان کے بچے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اوربات نہیں مانتے۔ یقیناً بچے کے ایسے برتاؤ کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجوہات ضرور ہوتی ہیں۔والدین کے لئے ان وجوہات کو جانا بھی ضروری ہے تاکہ اسے حل کیا جاسکے۔ لیکن کیا یہ زیادہ بہتر نہ رہے گا کہ مسائل سے پہلے ہی بچوں کی تربیت کو چند سنہری اصول اپنا تے ہوئے کیا جائے تاکہ مسائل کا کم سے کم سامنا ہو۔ اور بچوں میں فرمانبرداری پروان چڑھے۔
بچے کیوں بات نہیں سنتے
اگر کوئی بچہ مستقل طور پر والدین کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا ہے، تو طبی مسائل کو مستردنہیںکیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر یا کسی ماہر نفسیات سے اس پر بات کرنا اس رویے کی نشاندہی میں مدد دے گا۔اکثر لوگ یہ پسند بھی نہیں کر رہے ہوتے کے ان کے بچے کا معالجہ کوئی ماہر نفسیات کرے کیونکہ اسے ٹیبو سمجھا جاتا ہے۔اس کے کچھ آسان اور کارآمد طریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچوں کو نفسیاتی طور پر متحرک کیا جائے، تو ایک سستا امتحان یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر خاموشی سے پوچھیں کہ کون آئس کریم چاہتا ہے (یا جو دکان پر کھانے کے لیے کچھ پیسے چاہتا ہے)۔ اگر بچہ پرجوش ہاں کے ساتھ چھلانگ لگاتا ہے، تو شاید سماعت کا ٹیسٹ مکمل ہو گیا ہے۔
یہ فرض کرتے ہوئے کہ جسمانی سماعت کے مسائل نہیں ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت ساری وجوہات ہیں جو ہمارے بچے "سنتے" نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سن سکتے ہیں۔ وہ سن رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے نہیں سنتے ہیں تو یہ صحیح طریقہ نہیں۔ شاید ایک بہتر سوال یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچے ایسا کیوں نہیں کرتے جیسا ان سے پوچھا جاتا ہے؟
بچوں کے ہدایات کو نہ سننے یا ان پر عمل نہ کرنے کی عام وجوہات
ہمارے بچے ہماری ہدایات پر عمل نہ کرنے کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ان میں شامل ہوسکتا ہے وہ یہ نہیں بتانا چاہتا کہ کیا کرنا ہے۔
وہ ابھی کیا کر رہے ہیں اس پر ایک ہائپر فوکس
ہم ان سے جو کچھ کرنے کو کہہ رہے ہیں اس کے علاوہ کچھ کرنے کی ترجیح
اضافی ضروریات (جیسے ADHD یا ASD)
بھوکا، ناراض، تنہا، تھکا ہوا، یا تناؤ کا شکار
ان کے ساتھ ہمارے تعلق کا معیار
ان سے پہلے ہی کتنی چیزیں کرنے کو کہا گیا ہو
ہوسکتا ہے ان کے بہن بھائی سے اتنی ہی مقدار میں کام کرنے کو نہیں کہا جا رہا
چاہے یہ کوئی ایسی چیز ہو جس کی انہیں پرواہ ہو۔
دن میں بہت دیر ہو چکی ہے۔
وہ بھوکے ہیں۔
وہ سست ہوئے ہیں۔
وہ اپنے بہن بھائی کے ساتھ اس کام پر کام نہیں کرنا چاہتے
جس طرح سے ہم ان سے یہ کام کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
درحقیقت ایسا کرنے کی مہارت یا صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ ان سے پوچھا گیا ہے۔ اوربھی بہت سی وجوہات…
بہت سے معاملات میں، یہ صرف ایک چیز نہیں ہے، بلکہ چیزوں کا مجموعہ ہے۔ اپنے بچوں کی صلاحیتوں اور ذہنی حالت سے ہم آہنگ ہونا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے کہ ہمیں کب پوچھنا چاہیے، ہمیں کیا پوچھنا چاہیے، اور ہمیں کیسے پوچھنا چاہیے۔
لیکن کبھی کبھی چیزوں کو مختلف انداز سے کرنا پڑتا ہے، قطع نظر اس کے کہ ہر کوئی کیسا محسوس کرتا ہے۔ ان حالات میں ہمیں تحمل کی ضرورت ہے۔
قوانین اور آزادی میں توازن تلاش کرنا
لیکن کیا ہم حقیقی ہو کر سوچ سکتے ہیں؟
بچے کو اپنے خاندان کا حصہ بننا اور اپنے حصے کا کام کرنا سیکھنا کہتے ہیں۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی قواعد پر عمل کرنے میں مدد کریں۔ سول سوسائٹی اس طرح کام کرتی ہے۔
تو ہم کیا کریں جب ہمارے بچے "نہیں سنیں گے" اور اس سے واقعی کوئی فرق پڑتا ہے؟
آئیے چند اصولوںکو پیرنٹنگ کے پیرائے میں دیکھتے ہیں۔
’ناں‘ کو ’ہاں‘ میں بدلیں
بچوں کو اکثر ناں کہنے کی عادت پڑ جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ کہیں نا کہیں بڑوں اور اردگرد سے مسلسل منفی تاثرملنا بھی ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو یہ سیکھانا کہ آپ اپنے کھلونوں سے کھیلیں مگر بعد میں انھیں اپنی جگہ پہ رکھیں یا اِدھراُدھر نہ پھینکیں۔ بعد اوقات بچوں کو بس رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔جس سے وہ بلاوجہ کے انکار سے بچ سکتے ہیں اور بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
حیثیت واضح کرنا
بڑے اکثر بچوں پہ بلا وجہ رعب جماتے ہیں اور انھیں کچھ کرنے پہ مجبور کرتے ہیں جس سے بچوں کے اندر منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یابعض اوقات تو وہ نفرت آمیز رویوں کی وجہ سے ڈھیٹ بھی بن جاتے ہیں جیسا کہ اکثر والدین بچوں سے مار پیٹ کو تربیت کا حصہ سمجھتے ہیں جو کہ بلکل بھی نہیں۔بچوں کو دوسروں کے سامنے ڈانٹنا یا مارنا ان کی اپنی حیثیت کو مجروح کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں کو بیٹھ کر سمجھانا اور ان کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر ان سے بات کرنا ان کی حیثیت واضح کرنے اور رہنمائی میں معاون ہوتا ہے۔
لمس اور الفاظ
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بچہ گر جائے تو جیسے ہی اسے خود سے قریب کرکے پیار سے سہلایا جائے وہ فوراً چپ کر جاتا ہے ۔ یہ لمس کی طاقت ہے اور سائنسی تحقیقات بھی یہی کہتی ہیں کہ انسانی لمس تسلی بخش اور پریشانی دور کرنے سب سے بہترین طریقوںمیں سے ایک ہے۔یہ خوف کو دور کرتا ہے اور بچوں کو آپ کی بات سننے اور سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔بلکل اسی طرح الفاظ بنا وجود کے وہ مضبوط ترین ہتھیار ہیں جس سے آپ کسی بھی انسان کو جیت یا ہار سکتے ہیں۔بچے کو کوئی بات پیار سے سمجھائی جائے تو وہ سمجھ جاتا ہے لیکن بعض اوقات شرارتی بچوں کے ساتھ سختی بھی کرنی پڑتی ہے۔
اظہار تشکر اور تعریف
بچوں میں شروع سے ہی تشکر کا جذبہ پیدا ہوتاہے اور اس کے لئے کوئی بڑی سائنس نہیں چاہیے ہوتی بلکہ یہ وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو دیکھ کر سیکھ جاتا ہے۔ جیسے جب آپ کوئی خواہش پوری کرتے ہیں یا یہاں تک کے ہر مرتبہ کھانے دینے پہ بھی بچے کو شکر گزاری کی ترغیب دی جاسکتی ہے ۔ اس ضمن میں کہانیاں اور قصے بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح بچے کے اچھے کام کرنے پر اس کی حوصلہ افزائی کرنا بچے کے اندر جوش جذبہ پیدا کرتا ہے اور اگلی بار جب اسے کوئی کام کہا جاتا ہے تو اسے ستائش کی چاہ وہ کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
خودمختاری اور امتحان
بچوںکو شروع سے ہی اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے اس سے ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔والدین جب بچوںکا ہر کا م اپنے ہاتھ سے کرنے لگتے ہیں اور انھیں سپون فیڈنگ کی عادت ڈال دیتے ہیں تو بعد میں بچوں میں یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ضروری یہ ہے کہ بچے اپنے چھوٹے چھوٹے کا م خود کریں اس سے ان میںاحساس ذمہ داری بھی پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں خود اعتماد بھی بن پائیں گے۔بعض اوقات بچے وہ نہیں بھی کر رہے ہوتے جو والدین انھیں سمجھا رہے ہوتے ہیں اس کے لئے ان کا امتحان بھی لیا جاسکتا ہے یہ جائزہ لیتے ہوئے کے وہ کتنا سنتے اور سمجھتے ہیں اور ان کا عمل کیا ہے۔
مثال اور صبر
کہانیاں اور قصے ہمیشہ سے بچوںکی تربیت کا بہترین ذریعہ رہے ہیں۔ کیونکہ انسانی ذہن کہانی گوئی پسند کرتا ہے۔بچوں کو مثالوں سے سمجھایا جاسکتا ہے انھیں کامیاب لوگوں کی کہانیاںسنائی جاسکتی ہیں اور ایسی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔
اکثر ماں باپ بنا یہ دیکھے سمجھے بچے کو کوئی حکم صادر کر دیتے ہیںکہ وہ کیا کر رہا ہے ۔ ضروری ہے کہ بچے جو کام کر رہا ہے اسے پہلے وہ کرنے دیا جائے اس سے اسے توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی ۔ بچے بڑے کی طرح بیک وقت بہت سے کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے توضروری ہے کہ انھیں ایک وقت میں ایک ہی کام کہا جائے۔
سامع بنیں
ہم میں سے اکثریت کا مسئلہ یہ ہوتاہے کہ انھیں سننے کی عادت نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بچہ سیکھنے کی عمر میں بار بار سوال کرتا ہے۔اور یہ سوال کرنے کا رجحان انھیں ذہنی طور پر مضبوط بناتا ہے ان کی ذہنی الجھنوں کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ والدین کے لئے ان کے سوالوں کا جواب دینا اور انھیں سننا ضروری ہے یقینا یہ صبر آزما ہے لیکن اس سے بچوں کی تربیت بھی ہوجاتی ہے اوروہ سمجھدار بھی ہوجاتے ہیں۔بچوںکو وقت دینا چاہیئے اور وہ ایک اچھا سامع بن کر ہی دیا جاسکتا ہے۔اکثر والدین اپنے نوجوان بچوں کی نافرمانی اور بات نہ سننے کی شکایت کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ بچپن میں بچوں کو وقت نہ دینا اور ان کی تربیت نہ کرنا ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو اگر شروع سے وقت دیں اور ان کوایک بہترین سامع بن کر سنیں تو وہ بڑے ہو کر بھی آپ سے اپنے دل کی ہر بات کہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
یہ وہ لاہور نہیں
لاہور کے حوالے سے کچھ کہنے کا حق تو پرانے لاہوریوں کو حاصل ہے، میرے جیسے لوگ بھی البتہ خود کو لاہوری کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ لگ بھگ 30 برس سے یہاں پر مقیم ہوں۔ میرے بچے یہیں پرپیدا ہوئے، پروان چڑھے، تعلیم وغیرہ سب ادھر ہی حاصل کی۔ اب تو اپنے آبائی شہر دو دو سال تک جانا نہیں ہو پاتا۔ رب ہی جانتا ہے کہ کہاں کی مٹی کہاں جا کر ملے گی، مگر میری تو خواہش ہے کہ وقت آخریں بھی ادھر آئے اور مٹی بھی داتا کی نگری کی نصیب ہو۔
اس کا البتہ افسوس ہے کہ ہم نے اپنے سامنے لاہور کو بدلتے ہوئے دیکھا۔ اس کا وہ حسن، رنگینی، دلکشی اور فسوں بتدریج تحلیل ہوتا گیا۔ آج کا لاہور کنکریٹ کا ایسا سنگی شہر ہے جس کی مناسبت 30 سال پہلے کے لاہور سے نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب 30 سال پہلے لاہور آیا تو یہ دھیمے سروں کا ایک حسین شہر لگا، جس نے اپنے بازو اس بے خانماں مسافر کے لیے کھول دیے تھے۔ ایک زمانے میں کراچی کو غریب نواز شہر کہا جاتا تھا، ہم نے تو یہ وصف لاہور میں بھی کمال درجے پر پایا۔ کھانا سستا اور عمدہ۔ گلی محلے میں ریڑھی پر ایسے لذیذ نان چنے، بونگ شوربہ مل جانا کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ جگہ جگہ پر ڈھابے، روایتی کھانوں کے مرکز جہاں مزے کے کھانے مل جاتے۔ ہریسہ، نہاری، حلیم، پٹھورے، مختلف انداز کے کباب، روایتی انداز کی مچھلی اور نجانے کیا کیا۔ اب تو لگتا ہے مہنگائی کا طوفان ہر شے کو لے ڈوبا۔
لاہور کی بڑی وجہ شہرت یہاں کا علمی، فکری اور ثقافتی ماحول رہا ہے۔ سرسید احمد خان کوئی سوا سو سال قبل لاہور آئے تو لاہوریوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں زندہ دلانِ لاہور کا نام دیا۔ یہ شہر زندہ دلان طویل عرصے تک اپنے شعبوں کے ممتاز ترین افراد سے آباد تھا۔ شاعری، ادب، تنقید، تحقیق، مصوری، ڈرامہ،تھیٹر، موسیقی، میلے، تہوار۔۔۔ ہر حوالے سے لاہور کے دلنشیں رنگ نمایاں تھے۔ ایسے ایسے قدآور لوگ ایک ہی وقت میں یہاں موجود تھے کہ اس زمانے کے لاہوریوں پر رشک آتا ہے۔ آپ خود تصور کریں کہ علمی اعتبار سے اسی شہر میں ایک طرف اچھرہ میں مولانا مودودی کی عصر کی محفل تھی، مولانا اصلاحی کا درس قرآن ہوتا، علامہ غلام احمد پرویز کی اپنی علمی محفل سجتی، اس کے علاوہ بھی کئی علمی، مذہبی محافل ہوتیں۔ اس کہکشاں کے رنگوں کی جھلک اس زمانے کی یادوں پر مشتمل کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
29 سال پہلے جب ہم لاہور وارد ہوئے تو صحافت کے علاوہ ایک بڑی کشش لاہور کے علمی ادبی ماحول کاحصہ بننے کی خواہش تھی۔ لاہور کی پرانی یادوں پر مشتمل کئی کتابیں پڑھ رکھی تھی۔ اس فسوں خیز ماحول کا تصور کر کے آدمی انبساط سے سرشار ہوجاتا۔ پاک ٹی ہاؤس جانے کی خواہش تھی۔ لاہور کی ادبی ڈائریاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا، حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں کی تفصیل جہاں باقاعدگی سے شائع ہوتیں۔ یہی سوچتے لاہور پہنچا کہ ٹی ہاؤس میں ہونے والی بحثیں کس رنگ کی ہوں گی، کیا کیا کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کا بڑا شہرہ سنا تھا۔ برٹش کونسل اور امریکن سینٹر کی لائبریریوں کی بھی دوستوں سے تعریف سنتے رہے تھے۔
افسوس کہ اپنی آنکھوں سے لاہور کا وہ پورا کلچر بدلتے دیکھا۔ یہ خوش گمانی تو لاہور آتے ہی ہوا ہوگئی کہ یہاں پر ماضی کی طرح کے ادبی حلقے اور فکری نشستیں جاری ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور دانشور جن میں شامل ہوتے اور نوجوانوں کی تربیت کا باعث بنتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ بکھر چکا ہے۔ وہ لوگ رخصت ہوگئے، جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ جو بچے، وہ اپنے اپنے گھروندوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کچھ بڑھاپے کے باعث متحرک نہیں رہے۔ بعض کو اب ہجوم بھاتا ہی نہیں۔ کسی نے اپنے گھر میں کبھی کوئی ستائشی نشست جما لی، جس میں دو چار مداحین اکٹھے ہوگئے۔ مشروب مغرب کے پیالوں پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے۔
کچھ یہ بھی ہوا کہ ٹی ہاؤس کا کھلا ڈلا درویشانہ ماحول اب ہمارے سپر اسٹار ادیبوں، دانشوروں کو راس ہی نہیں تھا۔ اس کی جگہ پانچ ستارہ ہوٹلوں اور اعلیٰ پائے کے ان کلبوں نے لے لی، جہاں کی سالانہ فیس لاکھوں اور ممبرشپ کے لیے کروڑ پتی ہونا شرط تھی۔ وہاں وہ گاہے بگاہے نشست جماتے اور اشرافیہ کو اپنے علم وہنر سے مسحور کرتے۔ شروع میں ہم حلقہ کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوتے رہے، پیچھے بیٹھنے والے ایک مبصر کے طور پر۔ سچ تو یہ کہ کچھ مزا نہ آیا۔ لگا کہ یہاں پر آنے والے بہت سے لوگوں کو ابھی دنیا بدل جانے کی اطلاع ہی نہیں ملی۔ یہ خبر ہی نہیں پہنچ سکی کہ اب 70 اور 80 کا عشرہ نہیں، بلکہ نئی صدی، نیا ملینئم شروع ہوچکا ہے۔ وہی لگے بندھے تصورات، گھسی پٹی تھیوریاں، ادبی مناقشے اور سب سے بڑھ کر تحریر سے زیادہ چہرہ دیکھ کر داد، بے داد دینا۔ پرانے لوگوں میں سے سید قاسم محمود جب تک زندہ تھے، وہ فعال رہتے، خاص اجلاسوں میں شامل بھی ہوجاتے۔ بہت سے سینیئر ادیب اور لکھاری البتہ شریک نہ ہوتے۔ ادبی محفلوں کی بے رونقی بڑھتی گئی۔ (یہ نائن الیون کے آس پاس کی بات کر رہا ہوں یعنی اٹھانوے، ننانوے سے 2001، 2002 تک۔)
ادھر دہشتگردی کے خوف سے برٹش کونسل لائبریری اور امریکن سینٹر لائبریری دونوں تک رسائی ختم ہوگئی۔ اجوکا کے بعض ڈرامے میں نے امریکن سینٹر کے ہال میں دیکھے، بعد میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں بھی کچھ ڈرامے ہوئے۔ پھر گوئٹے سینٹر بھی نہ رہا۔ خیر پھر اجوکا نے الحمرا کا رخ کیا۔ سال میں ایک آدھ بار وہ اپنے دو چار ڈرامے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، مگر پہلے جیسی بات نہیں۔
نائن الیون سے پہلے کے برسوں میں رفیع پیر تھیٹر والے ہر سال اکتوبر نومبر میں عالمی پرفارمنگ تھیٹر فیسٹیول کراتے تھے۔ اس میں کئی یورپی ممالک سمیت قریباً تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے تھیٹر گروپس آتے، دستاویزی فلمیں دکھائی جاتیں۔ شیما کرمانی، نگہت چوہدری اور تحریمہ مٹھا کمال شائستگی اورفنکاری سے نرت کی باریکیاں بیان کرتیں۔ افسوس کہ بدبخت دہشتگردوں نے لاہوریوں کو اس عالمی فیسٹیول سے بھی محروم کر دیا۔ اب پچھلے چند برسوں سے لاہور میں معاملات ٹھیک ہیں، مگر تھیٹر فیسٹیول کی کہانی ختم ہوچکی۔
لاہور کی ایک اور خاص بات فروری میں بسنت فیسٹیول تھا۔ ایسی رونق اور خوبصورتی جو لاہوریے آج بھی یاد کرتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے شاندار تہوار کو کچھ کنزیومر ازم اور کچھ لوگوں کی حماقتیں مار گئیں، حکومت بھی اسے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی۔ اب تو لگتا ہے کہ بسنت کا صرف نام ہی کلچر کی پرانی کتابوں میں رہ جائے گا۔ پھر ہر سال مارچ کا پورا مہینہ ریس کورس پارک میں جشن بہاراں کا میلہ لگتا۔ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا سے بھی فن کار، ہنرمند آتے۔ مجھے یاد ہے کہ شکار پور والوں کے اسٹال سے ان کا مشہور اچار اور ماوا (کھویا) کئی بار لیا۔ ایک بار بلوچستان کے اسٹال سے خوبصورت بگٹی چپل بھی خریدی۔ عجب رنگا رنگ فیسٹیول تھا وہ بھی۔ اب وہ بھی اجڑ گیا۔ لگتا ہے جیسے لاہور اور لاہوریوں سے رنگ روٹھ ہی گئے ہیں۔
لیجنڈری شخصیات کی مالا بھی نہ رہی۔ رفتہ رفتہ موتی جیسے وہ لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے رہے۔ افسوس کہ ان کی جگہ لینے کے لیے دور دور تک کوئی موجود نہیں۔ ہر ایک کے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک نہیں بھر سکا۔ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، اشفاق احمد، قتیل شفائی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر انیس ناگی، شہزاد احمد، سید قاسم محمود اور ہمارے ہردلعزیز امجد اسلام امجد۔۔۔ کس کس کا نام لیا جائے۔
ان میں بعض ایسے بھی تھے، جو آخری عمر تک محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر محفلیں سجاتے رہے۔ اشفاق صاحب اگرچہ پوش علاقے کے ایک شاندار گھر میں مقیم تھے، گیٹ پر ایک چاق و چوبند گارڈ تعینات تھا، بغیر وقت لیے ملنا آسان نہیں تھا۔ اس گھر کے دروازے البتہ نوجوانوں پر کھلے تھے۔ کوئی بھی لڑکا، لڑکی فون پر وقت لے کر اشفاق صاحب سے مل سکتا تھا۔ بابوں کے قصے کہانیاں، روحانیت میں ڈوبی حکایتیں سننے کے ساتھ ان کی فراخدلانہ میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا۔ دو چار بار ہم بھی حاضر ہوئے، گھنٹوں پر محیط ان نشستوں کی یادیں آج بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہیں۔
احمد ندیم قاسمی صاحب بھی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں موجود ہوتے۔ ان کے گرد احباب کا جھمگھٹا لگا رہتا۔ قاسمی صاحب ادیب تو بڑے تھے ہی، مگر ادیب ساز بھی کمال کے تھے۔ میں تو ایک آدھ بار ہی وہاں جا سکا، مگر ہمارے کئی دوست وہاں جاتے رہے، ان کی تحریریں فنون میں بھی شائع ہوتیں۔ منیر نیازی یکسر مختلف مزاج کے انسان تھے۔ ان کا ایک مخصوص حلقہ احباب تھا، ہر ایک نیازی صاحب کے مزاج کو نہیں سمجھ پاتا نہ ہی ان کی نظر میں جچنا آسان کام تھا۔
ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کے آخری دنوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ طفیل روڈ، کینٹ کے ایک پرسکون گھر میں وہ مقیم تھے۔ یار دیرینہ کرامت علی بھٹی کے ساتھ ڈاکٹر وزیرآغا سے فون پر وقت طے کر کے حاضر ہوتے۔ کمال آدمی تھے، اپنا علم اور معلومات اپ ڈیٹ رکھتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے ہر ملاقات معلومات اور علم کے نئے در وا کرتی۔ دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ سائنس اور کاسمولوجی جیسے موضوعات پر ان جیسی نظر رکھنے والا کوئی ادیب میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جی چاہتا ہے کبھی ڈاکٹر صاحب مرحوم پر تفصیل سے لکھوں، ان کی آپ بیتی بڑی دلچسپ اور شاندار ہے۔ جانے کیوں ہمارے نقادوں نے ڈاکٹر صاحب کی شاعری کی طرح ان کی خود نوشت کو بھی سفاکانہ بے پروائی سے نظر انداز کیا؟
پاک ٹی ہاؤس کو ہم نے اپنے سامنے بند ہوتے اور پھر اسے دوبارہ سے شروع ہوتے دیکھا۔ اس کا دوبارہ شروع ہونا عطاالحق قاسمی صاحب کا کریڈٹ ہے۔ ان کی کاوش سے ارباب اقتدار اس جانب مائل ہوئے۔ پاک ٹی ہاؤس صرف چائے خانہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت بھی تھا۔ نصف صدی سے زیادہ علمی، ادبی، فکری اور تہذیبی سفر کا عینی شاید۔ ایسے تہذیبی مراکز زندہ رہنے چاہییں۔ پاک ٹی ہاؤس میں اب بھی حلقہ ارباب ذوق اور بعض دیگر تنظیموں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ پچھلے سال بہت متحرک نواز کھرل سیکریٹری تھے تو انہوں نے کئی یادگار اجلاس منعقد کر ڈالے۔
پاک ٹی ہاؤس کے باہر انارکلی کا مشہور پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔ ہر اتوار کو کتابوں کے متلاشی وہاں کا رخ کرتے اور اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ وہاں سے بسا اوقات کئی شاندار کتابیں بہت سستے داموں مل جاتی ہیں۔ اس سب کے باوجود کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ادبی مراکز صرف عمارتوں سے تو نہیں بنتے، اصل اہمیت تو ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اگر فٹ پاتھ پر بیٹھ جائیں تو وہ محفل کی صورت دھار لیتا ہے۔ ایسے لوگ کہاں سے اب لائیں؟ وہ نوجوان کہاں سے لائیں جو چائے کی پیالی پر بحث مباحثے، نظریات ڈسکس کرتے، دنیا بدل جانے کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ خواب دیکھنے والے کہاں سے آئیں گے؟
ایسا نہیں کہ لاہور مردہ شہر ہے، اس میں زندگی آج بھی دوڑتی ہے، اس کے رگ وپے میں خون دوڑتا ہے، مگر وہ پہلے سی بات نہیں رہی۔ شائد ہم نے اپنے سامنے اس شہر کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، اس لیے اس میں پرانی پرچھائیں ڈھونڈتے ہیں۔ ممکن ہے کسی نوجوان کو ایسا کچھ محسوس نہ ہو۔
لاہور میں دانشوروں، اساتذہ اور صحافیوں کا ایک فورم سی این اے (سی این اے) بھی ہے، پچھلے 28 برسوں سے ہر جمعہ کی شام اس کا اجلاس ہوتا ہے، مختلف ایشوز پر گفتگو، بحث مباحثہ۔ اکیس برسوں سے میں اس کا ریگولر ممبر ہوں۔ لاہور کے بہت سے نامور صحافی، اساتذہ، پروفیسر، دانشور اس کے ممبر رہے ہیں، بہت سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سینیئر صحافی، ایڈیٹر ارشاد احمد عارف اسے فعال اور زندہ رکھے ہوئے ہیں، تونسہ کے سردار غلام مصطفیٰ میرانی اس کے سدابہار چیئرمین ہیں۔ میں سی این اے کے فورم میں ہر جمعہ شریک ہوتا ہوں۔ لاہور میں ایسی بیٹھک، ایسے فورم غنیمت ہیں، مگر وہی بات کہ آج کے لاہور میں کچھ نہ کچھ مسنگ ضرور ہے۔ جیسے پھولوں کی خوشبو کم ہوجائے، تتلی کے رنگ پھیکے پڑ جائیں، جیسے باد صبا میں بادِ سموم کی آمیزش ہوجائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
wenews ثقافتی ماحول رنگینی عامر خاکوانی علمی و ادبی محفلیں کنکریٹ لاہور وی نیوز