بھارتی فوجیوں کا مودی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج، مراعات کی فراہمی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
بھارت میں پہلی بار ایک غیرمعمولی صورت حال دیکھنے میں آئی جب ریاست بہار میں بڑی تعداد میں سابق اور حاضر سروس فوجی اہلکاروں نے مودی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مظاہرین نے وردی میں سڑکوں پر نکل کر اپنی بنیادی ضروریات اور مراعات کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔ مظاہرے کے دوران فوجی اہلکاروں نے ہاتھوں میں بھارتی پرچم تھامے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور اپنے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کرنے والے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ وہ طویل عرصے سے بنیادی سہولیات اور مراعات سے محروم چلے آ رہے ہیں، اور اس حوالے سے کئی بار حکومت سے رجوع بھی کیا، لیکن بارہا درخواستوں کے باوجود ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔
فوجیوں نے واضح کیا کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا تو احتجاج کا دائرہ پورے ملک تک پھیلایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ ملک کی خدمت کو اولین ترجیح دی، لیکن اب جب ہمیں خود مشکلات کا سامنا ہے تو حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
یہ مظاہرہ نہ صرف مودی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے، بلکہ یہ اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ملک کے دفاعی اہلکاروں کو درپیش مسائل اب مزید نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیل میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا فوجی بھرتی کے خلاف احتجاج، 15 سالہ نوجوان ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یروشلم: اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس مذہبی یہودی مردوں نے فوج میں جبری بھرتی کے خلاف تاریخی احتجاج کیا، جسے منتظمین نے ملین مارچ کا نام دیا، احتجاج اس وقت افسوسناک صورتحال اختیار کر گیا جب ایک 15 سالہ لڑکا عمارت کی بلندی سے گر کر ہلاک ہوگیا۔
غیر ملکی میڈیارپورٹس کے مطابق یہ ریلی اسرائیل کی تمام مذہبی جماعتوں کی غیر معمولی اتحاد کی علامت تھی، مظاہرین نے فوج میں بھرتی کے قانون اور بھرتی سے انکار کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
احتجاج میں شریک 20 سالہ یہودا ہرش جو مذہبی گروہ ناتورئی کارتا سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم کسی صورت اسرائیلی فوج میں شامل نہیں ہوں گے، جیسے ہم حماس کے لیے نہیں لڑتے، ویسے ہی اسرائیلی فوج کے لیے بھی نہیں لڑیں گے، ہم اور اسرائیلی ریاست دو متضاد نظریات رکھتے ہیں۔
مظاہرے سے قبل چباد نامی مذہبی گروہ کے رہنماؤں نے عوام سے اجتماعی دعا اور احتجاجی ریلی میں شرکت کی اپیل کی تھی، یروشلم جانے والی ٹرینوں میں رش کے باعث اسٹیشنوں پر ہجوم لگ گیا جب کہ پولیس نے شہر کی مرکزی شاہراہ ہائی وے نمبر 1 سمیت متعدد راستے بند کر دیے۔ ہزاروں مظاہرین نے پیدل شہر کا رخ کیا۔
مظاہرے میں شریک ایک 25 سالہ نوجوان نے کہا کہ میں فوج میں نہیں جاؤں گا، چاہے مجھے جیل میں ڈال دیا جائے، میں پہلے بھی گرفتار ہو چکا ہوں، پھر ہو جاؤں گا مگر ریاست ہمیں سیکولر بنانے پر مجبور نہیں کر سکتی، نوجوان کے گرفتاری کے وارنٹ پہلے ہی جاری ہوچکے ہیں۔
اسی طرح 19 سالہ یشِیوا (مذہبی مدرسے) کے طالبعلم مائیکل نے بتایا کہ اسے بھی بھرتی کا نوٹس موصول ہوا ہے مگر اس نے کہا کہ جب تک ہمارے ربّی ہمیں اجازت نہیں دیتے، ہم فوج میں رپورٹ نہیں کریں گے، حماس میں قیدیوں کا حشر ہم نے دیکھ لیا ہے، جنہیں ایک وقت کا کھانا ملا کرتا تھااور زندہ رہنے کے لیے پینے کا پانی اور ان کے پاس جو لاشیں ہیں وہ اب تک ہم حاصل نہیں کرسکیں ہیں۔
یہ احتجاج ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل غزہ میں بدترین انسانی المیے کا باعث بننے والی جنگ میں مصروف ہے بکہ اندرونِ ملک مذہبی طبقہ ریاست کے سیکولر قوانین اور فوجی نظام کے خلاف کھل کر سراپا احتجاج ہے۔