وفاقی حکومت سیلاب متاثرین کے لیے جلد اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کرے، وزیر اعلیٰ سندھ
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے وفاقی حکومت جلد اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کرے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اتوار کو گڈو بیروج کا دورہ کیا ، انہوں نے دریائے سندھ میں سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا۔
صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو، رکن قومی اسمبلی میر شبیر علی بجارانی ، سردار علی جان مزاری ، رکن سندھ اسمبلی عبدالرئوف کھوسو اور دیگر اہم شخصیات ان کے ہمراہ تھیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ بعد ازاں سکھر بیراج کا بھی دورہ کیا اور وہاں پر پانی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سیلابی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں کے دورے پر روہڑی کے قریب ہی پوائنٹ علی واہن بھی گئے۔
وزیراعلی کے ہمراہ صوبائی وزراء مخدوم محبوب الزماں، جام خان شورو ، جام اکرام اللہ دھاریجو، ایم این اے۔ ایم پی ایز جام مہتاب ڈہر اور سید فرخ شاہ موجود تھے۔
پی پوائنٹ بند پر چیئرمین ضلع کونسل سکھر سید کمیل حیدر شاہ کمشنر سکھر ڈویژن عابد سلیم قریشی، ڈی آئی جی سکھر فیصل عبداللہ چاچڑ، ڈپٹی کمشنر سکھر نادر شہزاد خان بھی موجود تھے، وزیراعلی سندھ نے سیلاب متاثرین کیلئے قائم ریلیف کیمپ میں سہولیات کا جائزہ لیا۔
مراد علی شاہ نے گڈو بیراج کے دورہ کے دوران سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا، انہیں وزیر آبپاشی جام خان شورو اور سیکریٹری آبپاشی ظریف کھیڑو نے بریفنگ دی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گڈو بیراج پر اس وقت 627908 کیوسکس پانی یعنی اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے، ضلع کشمور اور شکارپور میں سیلابی پانی کے محفوظ اخراج کے لیے اقدامات کئے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ہدایات دی کہ کمزور اور حساس مقامات پر نگرانی مزید سخت کی جائے، مراد علی شاہ نے فلڈ فائٹنگ کے عملے کو 24 گھنٹے موجود رہنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو عوامی تعاون کے ساتھ ریلیف اقدامات تیز کرنے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری طور پر صوبائی کنٹرول روم کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
https://x.
مراد علی شاہ کا کہنا تھا بلاول بھٹو زرداری نے گڈو اور سکھر بیراج کا جائزہ لیا تھا، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول نے وفاق سےکہا تھا کہ زرعی ایمرجنسی لگائیں، وزیراعظم کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے وفاقی کابینہ کےاجلاس کے بعد زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کی۔
انہوں نے کہا کہ جلد سےجلد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے متاثرین کی مدد کی جائے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر چند سالوں کے بعد ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وزیراعظم سے کہتاہوں اقوام متحدہ کو ریلیف کے لیے فوری اپیل کی جائے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ گڈو بیراج پر پانی کی آمد 6 لاکھ کیوسک سے زائد ہے، اندازہ ہے کہ ساڑھے 6 سے 7 لاکھ کیوسک کا ریلا سکھر بیراج سےگزر سکتا ہے، گڈو سے سکھر تک موجود بند کی مضبوطی کے لیے کام کیا ہے، ہماری پہلی ترجیح لوگوں کی جان بچانا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیئرمین بلاول نے کہا تھا کہ متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امداد دیں لیکن وہ اب تک نہیں دی گئی، چیئرمین بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا تھا کہ عالمی امداد کی فوری اپیل کریں، وہ اب تک نہیں کی گئی، وفاقی حکومت جلد اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کرے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ گڈو بیراج پر اس وقت پانی کی سطح ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک تک ہے جبکہ بیراج ساڑھے چھ لاکھ کیوسک تک پانی گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تمام حفاظتی بندوں کی صورتحال تسلی بخش ہے۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ حساس مقامات پر مشینری تعینات ہے جبکہ پاک فوج، پاک بحریہ، پی ڈی ایم اے اور ریسکیو 1122 سیلاب متاثرین کی امداد میں صوبائی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ امید ہے سیلابی ریلا باآسانی سکھر بیراج سے گزر جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزراء اور انتظامیہ پورے سندھ میں کشمور سے کیٹی بندر تک متاثرہ علاقوں میں موجود اور سرگرم عمل ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ حکومت سندھ کی پہلی ترجیح عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=P1ezKSQqkyI
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ سید مراد علی شاہ صورتحال کا جائزہ مراد علی شاہ نے سیلاب متاثرین کا جائزہ لیا اقوام متحدہ سکھر بیراج لاکھ کیوسک متاثرین کی گڈو بیراج وزیر اعلی نے کہا کہ امداد کی انہوں نے تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
الفاشر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد شہر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے عالمی تنظیم کے ریلیف چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، لوگوں کو مسخ اور قتل کیا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ مکمل استثنیٰ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کے شمالی دارفور کے دارالحکومت الفاشر پر آر ایس ایف ملیشیا کے قبضے کے بعد شہر ’’مزید گہری جہنم‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پانچ سو روزہ محاصرے کے بعد جب باغیوں نے شہر پر قبضہ کیا تو ہزاروں افراد پیدل ہی بھاگنے پر مجبور ہو گئے، جبکہ اجتماعی قتل، عصمت دری اور بھوک سے اموات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے عالمی تنظیم کے ریلیف چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، لوگوں کو مسخ اور قتل کیا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ مکمل استثنیٰ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان چیخوں کو نہیں سن سکتے، مگر آج جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، یہ ہولناکیاں جاری ہیں۔فلیچر کے مطابق آر ایس ایف نے سوڈانی مسلح افواج (ایس اے ایف) کے آخری بڑے گڑھ پر قبضے کے بعد گھر گھر تلاشی شروع کی اور فرار کی کوشش کرنے والے شہریوں کو اجتماعی طور پر ہلاک کیا۔ سعودی زچگی اسپتال سمیت کئی طبی مراکز نشانہ بنے، جہاں اطلاعات کے مطابق تقریباً 500 مریض اور ان کے تیماردار مارے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دسیوں ہزار خوف زدہ اور بھوکے شہری نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ جو نکلنے میں کامیاب ہوئے، ان میں اکثریت خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے، مگر وہ بھی راستے میں لوٹ مار، تشدد اور جنسی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ افریقہ کے لیے اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مارٹھا پو بی نے کہا کہ الفاشر کا سقوط سوڈان اور پورے خطے کے لیے سلامتی کے منظرنامے میں ایک سنگین تبدیلی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے اثرات نہایت گہرے اور خطرناک ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کردوفان کے علاقے میں بھی لڑائی تیز ہو چکی ہے جہاں آر ایس ایف نے گزشتہ ہفتے اسٹریٹجک قصبہ بارا پر قبضہ کیا، جبکہ دونوں فریقوں کی جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملے اب بلیو نیل، جنوبی کردوفان، مغربی دارفور اور خرطوم تک پھیل چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے الفاشر اور بارا میں اجتماعی قتل، فوری سزائے موت اور نسلی انتقام کی دستاویزات تیار کی ہیں۔ بارا میں گزشتہ دنوں کم از کم 50 شہری ہلاک ہوئے جن میں سوڈانی ریڈ کریسنٹ کے پانچ رضاکار بھی شامل ہیں۔ ٹام فلیچر نے کہا کہ الفاشر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 20 سال قبل دارفور میں پیش آنے والے مظالم کی یاد دلاتا ہے، مگر اس بار دنیا کی بے حسی زیادہ خوفناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحران دراصل عالمی لاپرواہی اور بین الاقوامی قانون کی ناکامی کی علامت ہے۔