خواتین کے لباس سے متعلق نامناسب بیان پر عظمیٰ بخاری نے غلطی کا اعتراف کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے خواتین کے لباس سے متعلق کیے گئے نامناسب تبصرے پر غلطی کا اعتراف کرلیا ہے۔
کچھ دن قبل وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ایک پریس کانفرنس میں خواتین کے لباس سے متعلق بات کی تھی جس میں انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جو مریم نواز کے لباس پر تنقید کرتے ہیں وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں جن کی اپنی امیاں کپڑے پہننا ہی مناسب نہیں سمجھتیں‘۔
اب ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اپنے اس بیان پر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ایک عورت ہیں اور سمجھ سکتی ہیں کہ خواتین کو لباس سے متعلق کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میرے منہ سے ایسی بات نکلی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ کیا مریم نواز کسی کی ماں یا بہن نہیں ہیں؟ میں بھی ایک ماں ہوں لیکن خواتین کو جو سر کے باوں سے پیروں کے ناخن تک تنقید برداشت کرنی پڑتی ہے اس کا صبر بھی اکثر ختم ہوجاتا ہے۔
عظمیٰ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ 'ن لیگ کی خواتین کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے لباس پر تنقید اور ان کیلئے استعمال کیے جانے والے الفاظ بہت ہی غلط ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے کے بجائے لوگ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ مریم نواز صوبے کے لیے کیا کررہی ہیں اور کیا کیا کر چکی ہیں اس پر بات کیوں نہیں کی جاتی۔ وزیر اطلاعات نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہمیشہ خواتین کے لباس پر ہی بات کی جائے؟
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواتین کے لباس مریم نواز
پڑھیں:
مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
مصر کے سابق نائب صدر اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ مصر کے سابق نائب صدر محمد البرادعی جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں نے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر خاموشی کے باعث عرب ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: "عالمی سطح پر حکومتوں، تنظیموں اور ماہرین میں اس بات پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے جنگی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے انسانیت کے خلاف دیگر جرائم بھی انجام دیے ہیں۔ مزید برآں، کچھ ممالک جیسے کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، ترکی اور بولیویا نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے اور بنگلہ دیش، بولیویا، جزر القمر، جیبوتی، چلی اور میکسیکو جیسے ممالک نے عالمی فوجداری عدالت میں بھی اسرائیل کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔ لیکن عرب حکومتوں کی اکثریت نے اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہم ہی اس مسئلے کے حقیقی مدعی ہیں۔" انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں گا۔"
محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور بڑی تعداد میں صارفین نے ان کے اس پیغام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ عرب حکومتیں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے اظہار کو اپنے ملک کے اندر مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایک مصری صافر نے جواب میں لکھا: "اگر آپ، محترم ڈاکٹر صاحب، حقیقت بیان کرنے سے خوفزدہ ہیں تو ہم کیا کریں؟ عرب ڈکٹیٹرز نے اسرائیل کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اسے اپنی عوام کو ڈرا سکیں۔" ایک اور صارف نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ عرب حکومتیں بین الاقوامی اداروں کی مدد حاصل کرنے کی بجائے امریکہ سے مداخلت کی درخواست کرتی ہیں۔ اس نے مزید لکھا: "یہ صورتحال مجھے کچھ ایسے مخالفین کی یاد دلاتی ہے جو نظام کے اندر سے اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ یوں سزا پانے سے بچ سکیں۔" کلی طور پر محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور ان تمام پیغامات میں غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر عرب حکومتوں کی خاموشی قابل مذمت قرار دی گئی ہے۔
یاد رہے جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023ء میں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس رژیم نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام دے کر نسل کشی کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جیسے برازیل، نکارا گویا، کیوبا، آئرلینڈ، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور ترکی نے اس مقدمے کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ نے اکتوبر 2024ء میں عدالت کو 500 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی تھی جس میں غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔ غاصب صیہونی رژیم نے آئندہ دو ماہ میں اپنی دفاعیات عدالت میں پیش کرنی ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 2027ء میں عدالت کا حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔