پشاور، افغان مہاجرین کی جعلی شناختی کارڈ سازی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
پشاور:
صوبائی دارالحکومت اور ملحقہ قبائلی اضلاع میں افغان مہاجرین کی جانب سے 1978 کی پالیسی کا سہارا لے کر جعلی دستاویزات کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق افغان مہاجرین پرانی تاریخوں میں بنائے گئے مینول شناختی کارڈز، ڈومیسائل، کرایہ نامے، ڈرائیونگ لائسنس اور زمینوں کے جعلی کاغذات جمع کروا کر کارڈ بنوا رہے ہیں۔
افغان مہاجرین کو جعلی شناختی کارڈ کے اجرا کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ جدید پرنٹ اور تازہ صفحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دستاویزات جعلی ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ بعض اہلکار اور مقامی انتظامیہ کی مبینہ ملی بھگت سے جعلی شناختی کارڈ کی تصدیق کی جاتی ہے، جس کے بعد درخواستیں منظور کر لی جاتی ہیں۔
شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان جعلی کاغذات کا سائنسی طریقے سے معائنہ کیا جائے اور دستاویزات بنانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
دوسری جانب نادرا حکام کا کہنا تھا کہ شناخت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ترجمان نادرا سید شباہت علی کے مطابق پرانے شناختی کارڈ اور دیگر ثبوت کی تصدیق نادرا اور متعلقہ صوبائی حکومت سے کی جاتی ہے تاہم عوام پاک آئی ڈی موبائل ایپ کے ذریعے کسی بھی غلط اندراج کی اطلاع دے سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین شناختی کارڈ
پڑھیں:
صحافی امتیاز میرکی ٹارگٹ کلنگ میںملوث ملزموں کاسنسی خیز انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-02-15
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) کراچی میں صحافی امتیاز میر کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ثار گروپ کے چار دہشت گردوں کے سنسنی خیز انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔ گرفتار ملزمان نے دورانِ تفتیش کئی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگز، غیرملکی تربیت اور بیرونی روابط کا اعتراف کیا ہے۔تفتیشی ذرائع کے مطابق مرکزی ملزم اجلال زیدی 2011 ء سے زینبیون بریگیڈ سے منسلک ہے اور متعدد فرقہ وارانہ وارداتوں میں ملوث رہا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلال زیدی کوتین سے چار بار “ڈنکی” کے ذریعے پڑوسی ملک بھیجا گیا، جہاں سے وہ فوجی اور عسکری نوعیت کی تربیت حاصل کرکے وطن واپس آتا تھا۔تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا کہ ملزمان کوپڑوسی ملک میں موجود ایک شخص کی جانب سے ٹارگٹس کے احکامات دیے جاتے تھے۔ کراچی میں ٹارگٹ ملنے کے بعد گروہ کے ارکان پہلے ریکی کرتے، پھر منصوبہ بندی کے تحت کارروائی انجام دیتے۔ذرائع نے بتایا کہ ملزم فراز، جو 2020 ء میں ایک قتل کی واردات میں ملوث نکلا، سٹی وارڈن کے محکمے میں ملازم بھی تھا۔ اسے گروپ کی جانب سے ہدایت ملنے پر ریکی اور فائرنگ کی کارروائیوں میں شامل کیا جاتا تھا۔تحقیقات کے مطابق ٹارگٹ ملنے کے بعد ملزمان کو نامعلوم سہولت کاروں کی جانب سے موٹر سائیکل اور اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا، جب کہ کسی رکن کی گرفتاری کی صورت میں جیل سے رہائی کے اخراجات بھی تنظیم کی جانب سے ادا کیے جاتے تھے۔تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب ملزمان کے بیرونی مالی معاونین، نیٹ ورک، اور روابط کی گہرائی سے چھان بین کر رہے ہیں۔ مزید انکشافات آئندہ چند روز میں متوقع ہیں۔