سیلاب کا مستقل حل اور SCO ممالک کے لیے فنڈ کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
پاکستان کے تمام دریاؤں کے کنارے ٹوٹ گئے ہیں اور بہت سے مزید بندوں میں شگاف کی تیاری ہو چکی ہے۔ آدھے سے زیادہ پاکستان بھارت کی طرف سے آئے ہوئے سیلابی ریلے میں ڈوب رہا ہے۔ لاکھوں مویشی ساتھ چھوڑ گئے، لاکھوں افراد اپنی چھتوں کے سائے سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقے جہاں کپاس، چاول، گنا اور سبزیاں وغیرہ بوئی جاتی تھیں اور یہ علاقے اور یہاں کی زرعی پیداوار جوکہ معیشت کی ریڑھ سمجھے جاتے تھے اب اجڑ کر رہ گئے ہیں۔ ان دو سے تین ہفتوں میں ہزار سے زائد افراد بے قابو سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں۔
لاکھوں ایکڑ اراضی پانی میں ڈوب کر ندی نالے اور دریا کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ کسانوں کی دیہی معیشت جوکہ پہلے ہی قرضوں سے گزر رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے زخم خوردہ ہے اب پڑوسی ملک نے جب سے آبی جنگ کا آغاز کیا ہے ان کی معیشت بھی سیلابی پانی میں بہہ گئی ہے۔ ایسے میں کسان اپنی فکر کے بجائے بچے کچھے مال مویشیوں کی فکر میں دن رات گھلا چلا جا رہا ہے، اگر بھوک کی شدت میں بھی کچھ طلب کرتا ہے تو اپنے جانوروں کی خوراک کا مطالبہ کرتا ہے۔
78 برس کا عرصہ گزر گیا، ہم نے موٹر ویز بنا لیے، بڑی سے بڑی بلڈنگز کھڑی کر لیں، دریاؤں کا راستہ روک کر قیمتی سے قیمتی مہنگی ترین سوسائٹیز آباد کر ڈالیں، لیکن ان دریاؤں کے کنارے نہ سنبھال سکے جو بارش آئے یا سیلاب آئے تو سارا پانی غریب کسان کی کھیتی ڈبوتا ہے۔ گھروں کو ویران کر دیتا ہے اور اپنے ساتھ ہماری غلطیاں یاد دلانے کی خاطر مال مویشی سامان و اسباب سب بہا کر لے جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آنے والا سیلابی پانی سمندرکی نذر ہو جاتا ہے لیکن سمندر کی طرف جانے سے پہلے ہر طرح کی تباہی مچا دیتا ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان صرف 30 دن پانی کا ذخیرہ کر سکتا ہے۔ بھارت کے پاس 200 دن اور امریکا کے پاس 900 دن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہمیں چین یا ہالینڈ جیسے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے کا وسیع تجربہ بھی ہے ، ان سے سیکھ لیتے تو یہ سارا پانی ضایع ہونے اور تباہی پھیلانے سے باز آجاتا۔پاکستان کی 65 فی صد آبادی دیہی ہے، اس موسم میں کپاس اور چاول کی فصل برباد ہو کر رہ گئی۔
3 سے 4 ارب ڈالر چاول کی برآمد سے حاصل کرلیتے تھے اور ایک ارب سے دو ارب ڈالر تک کپاس کی برآمد سے حاصل کرلیتے تھے۔ مزید یہ کہ 16-17 ارب ڈالر کپاس پر مبنی صنعت کی برآمد سے حاصل ہو جاتا تھا۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق پاکستان کے کسانوں کا 6 سے 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس میں مویشی و مال اسباب اور گھروں کے ڈھے جانے کا نقصان شامل ہے۔ کسانوں کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ اب ان کے پاس سارے سال کا ذخیرہ کردہ خوراک جیسے چاول، گندم، مکئی وغیرہ اور فروخت کے لیے کپاس اور دیگر فصلیں وہ سب تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔
مویشی مال و املاک بہہ گئے، اب کیا ہوگا؟ کسان کہاں جائیں گے؟ انھی کسانوں کی معاشی مشکلات کو لے کر پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ بیجنگ میں چینی قیادت اور معاشی حکام سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی معاشی مشکلات، معاشی پروگرام اصلاحاتی پروگرام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دراصل فوری طور پر چین ہے جو ہمیں کسانوں کی بحالی زرعی معیشت دیہی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے تعاون کر سکتا ہے۔SCO سمٹ جو اپنی نوعیت کا بہت بڑا اجلاس تھا، اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے چین اور دوست ممالک کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ فوری انسانی امداد کے تحت خوراک، خیمے، ادویات اور طبی عملہ، سانپ کاٹے کی ویکسین وغیرہ کی ضرورت پر زور دیا۔
اس کے علاوہ طویل مدتی سرمایہ کاری جس میں پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے، ڈیموں کی تعمیر اور جدید زرعی انفرا اسٹرکچر تاکہ سیلاب آیندہ کسانوں کی زندگی اس طرح برباد نہ کرے۔ وزیر اعظم نے تجویز دی کہ SCO ممالک ایک مشترکہ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ قائم کریں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک کو فوری سہارا دیا جاسکے۔اگر اس اجلاس سے پاکستان کے لیے چین اور SCO ممالک سیلاب متاثرین کے لیے امدادی ہاتھ بڑھاتے ہیں اور ساتھ ہی فوری طور پر بڑے ڈیمز اور ماحولیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو موسمیاتی آفات سے محفوظ بنانے کی سمت ایک قدم ہوگا۔
ان سب باتوں کے باوجود حکومت کے پاس بھی وسائل کم ہیں اور دنیا ہماری مدد کو نہ جانے کب آئے گی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا نام لے کر قوم آگے بڑھے۔ یہ وقت ہے قوم کا۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں کتابوں میں یہ تجزیہ لکھا جائے گا کہ پاکستانی قوم نے آزمائش کی اس گھڑی میں بھارت کی مسلط کردہ آبی جنگ میں دنیا کی مدد کا انتظار نہیں کیا بلکہ خود اٹھ کھڑے ہوئے۔ مدد لے کر اپنے بھائیوں کے پاس پہنچے۔ ان کے لیے دوا، علاج، روٹی، خیمے، بستر اور ہر شے کا انتظام کیا۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈر ہے دریا کے تھپیڑوں سے
چمک اٹھے گا سورج تیری ہمت کے اجالوں سے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے کسانوں کی ارب ڈالر گئے ہیں کے لیے کے پاس
پڑھیں:
پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت
دوحہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا انسانیت کیخلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہو گا، پاکستان قطر کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتا ہے، اسرائیل کا قطر پر حملہ جارحانہ اقدامات کا تسلسل ہے، اقوام متحدہ میں اسرائیلی کی رکنیت کی معطلی کی تجویز کے حامی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ جبکہ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی اجلاس میں مسلم ممالک کے سربراہوں سے خطاب میں کہا کہ [حماس] کو امریکا کی طرف سے تجاویز پر توجہ مرکوز کرنی تھی لیکن کیا آپ نے کبھی ایسی جارحیت کے بارے میں سنا ہے؟ کہ ایک ایسی ریاست جو مذاکرات کے لیے مستقل مزاجی سے کام کر رہی ہو، ایک ایسی ریاست جو مذاکرات میں ثالث ہے اور پھر اسی مقام پر جارحیت کی گئی ہو جہاں مذاکرات ہو رہے ہیں۔(جاری ہے)
امیر قطر نے سوال کیا کہ اگر اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر مذاکرات کیوں؟ اگر آپ یرغمالیوں کی رہائی پر اصرار کرتے ہیں تو پھر وہ تمام مذاکرات کاروں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟ ہم اپنے ملک میں اسرائیل کے مذاکراتی وفود کی میزبانی کیسے کر سکتے ہیں جب کہ وہ ہمارے ملک پر فضائی حملے کے لیے ڈرون اور طیارے بھیجتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ سوالوں کی ضرورت نہیں یہ صرف بزدلانہ جارحیت ہے ایسے فریق کیلیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپنے خطاب میں امیر قطر نے کہا کہ اسلامی ملکوں کے رہنماؤں کو دوحا آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی حالانکہ قطر نے ثالث کے طور پر خطے میں امن کےلیے مخلصانہ کوششیں کیں، اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا، یرغمالیوں کی پرامن رہائی کے تمام اسرائیلی دعوے جھوٹے ہیں، گریٹراسرائیل کا ایجنڈاعالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے۔