Express News:
2025-09-18@16:27:54 GMT

سیلاب میں اجڑے گھر، ڈوبے خواب اور قرض کی زنجیریں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT

لاہور:

سیلاب کی تباہ کاریوں نے جہاں کھیت کھلیانوں کو روند ڈالا وہیں بہت سے لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی بھی چند ہی لمحوں میں مٹی اور پانی میں دفن ہوگئی۔

لاہور میں موہلنوال کے قریب ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں وہ گھر جو خوشیوں کے خوابوں سے آباد کیے گئے تھے، آج شکستہ دیواروں، گرے ہوئے دروازوں اور پانی میں ڈوبے سامان کے ساتھ ویران کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ان مکینوں کے دکھ صرف سامان اور مکان کے نقصان تک محدود نہیں بلکہ ان پر قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی ایسا ہے جو ان کے کاندھوں پر اور زیادہ بھاری محسوس ہوتا ہے۔

بشارت بی بی نے چند روز پہلے ہی اپنے خوابوں کا گھر مکمل کیا تھا۔ خوشی اتنی زیادہ تھی کہ گھر میں دعا کروانے کی تیاری ہو رہی تھی لیکن قدرت کی بے رحم آفت نے ان کی خوشیاں چھین لیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں جب وہ بتاتی ہیں کہ 10 اگست کو گھر مکمل ہوا، ابھی دعا کروانی تھی کہ سیلاب نے سب کچھ اجاڑ دیا۔

بشارت بی بی کے شوہر جو رکشہ چلاتے ہیں، گھر کی رنگ و روغن کے دوران گر کر زخمی ہوگئے۔ بازو فریکچر ہے اور کام بھی رکا ہوا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ گھر انہوں نے "اپنی چھت اپنا گھر" اسکیم کے تحت اخوت سے قرض لے کر بنایا تھا۔ پہلی قسط ابھی ادا بھی نہ ہوئی تھی کہ گھر پانی میں بہہ گیا۔ بشارت بی بی کی آواز میں بے بسی صاف جھلکتی ہے اب نہ گھر ہے نہ سامان، اور قرض بھی واپس کرنا ہے۔

ندیم اقبال اور ان کے بھائیوں کا دکھ بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ برسوں کی محنت، پسینے اور جمع پونجی کو یاد کر کے ٹوٹے دل سے کہتے ہیں ہم نے زندگی بھر کی کمائی خرچ کر کے یہ گھر بنایا تھا لیکن سیلاب نے سب خواب اور ساری خوشیاں برباد کر دیں۔ ان کے گھر میں اب بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور وہ بے بسی سے اپنی کھڑکیوں کے باہر لہروں کو دیکھتے رہتے ہیں۔

محمد جہانگیر کے گھر سے اگرچہ پانی اتر چکا ہے مگر تباہی کی داستانیں وہاں ہر کونے میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کے دروازے کیچڑ میں اٹے ہوئے ہیں، فرنیچر سوج کر ٹوٹ چکا ہے، پانی کی موٹر اور برقی آلات ناکارہ ہو گئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب سیلابی پانی آیا تو پولیس اور حکام نے سب کو گھر سے نکال دیا اور کسی کو کچھ ساتھ لینے کی اجازت نہ دی۔ جہانگیر کی والدہ چھت پر بیٹھی اپنی بیٹی کے جہیز کا سامان دھوپ میں سکھا رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ کپڑوں پر رگڑتے ہیں مگر آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں بیٹی کے جہیز کا سامان خریدا تھا، سب خراب ہوگیا۔ کچھ چیزیں تو چوری بھی ہو گئیں۔

جہانگیر دکھ بھری آواز میں بتاتے ہیں کہ ان کا سولر سسٹم کا انورٹر بھی کوئی اٹھا کر لے گیا۔ یہ صرف انہی کا نہیں، بلکہ علاقے کے کئی رہائشیوں کا حال ہے جو نہ صرف سیلاب سے محرومی کے زخم سہہ رہے ہیں بلکہ چوریوں کا دکھ بھی جھیل رہے ہیں۔

یہ کہانیاں ان سیکڑوں گھروں کی ہیں جو  نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قرض لے کر تعمیر کیے گئے تھے۔ اب جب پانی نے اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے تو مکین نہ صرف اپنے اجڑے گھروں کو دیکھ کر دکھی ہیں بلکہ قرضوں کی قسطیں لوٹانے کی فکر نے انہیں مزید کچل دیا ہے۔

یہ لوگ اب حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ہماری آواز سنیں۔ ہم نے خواب دیکھے تھے، محنت کی تھی، قرض لے کر اپنے بچوں کے لیے چھت بنائی تھی مگر سب کچھ ختم ہوگیا۔ کم از کم ہمارے قرض معاف کر دیے جائیں تاکہ ہم دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔

یہ انسانی المیہ صرف تباہ گھروں کا نہیں، بلکہ ٹوٹے خوابوں، بہتے جہیز، ملبے تلے دبے مستقبل اور قرض کی زنجیروں میں جکڑے ان لوگوں کا ہے جنہیں اب بھی امید ہے کہ شاید ریاست ان کی آواز سنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے راوی ستلج اور چناب میں سیلاب کے 33 سو سے زائد موضع جات  میں 33 لاکھ 63 ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب میں پھنس جانے والے 12 لاکھ 92 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں کہ

پڑھیں:

کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا تو فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی، وزیراعلیٰ سندھ

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر 2025ء ) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سیلاب سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کا فوری حل نکالنا ضروری ہے ورنہ فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کا فوری حل نکالنا ضروری ہے بصورت دیگر ملک میں فوڈ سکیورٹی کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے جنہیں سنبھالنا مشکل ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین بلاول بھٹو کی تجویز پر نوٹس لیتے ہوئے ایگریکلچرل ایمرجنسی نافذ کی اور وفاقی سطح پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں صوبوں کے نمائندے شامل ہیں جو موجودہ صورتحال کے حل کے لیے اقدامات کریں گے۔

مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی کی ہدایت پر سندھ حکومت نے کسانوں کی امداد کے لیے ایک پیکج کا خاکہ تیار کیا ہے جس کی تفصیلات اگلے ہفتے سامنے لائی جائیں گی، بلاول بھٹو زرداری کا وژن تھا کہ اقوام متحدہ کی سطح پر فلیش اپیل کی جائے اور گزشتہ روز وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی میٹنگ میں یہ معاملہ زیر بحث آیا، جس پر سندھ سمیت تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے آغاز پر ہی سندھ حکومت نے اپنی تیاری شروع کردی تھی جس میں اولین ترجیح لوگوں کی جان بچانا، بیراجوں کو محفوظ بنانا اور بندوں کو مضبوط کرنا تھا، سیلاب کی پیک گڈو بیراج سے گزر چکی اور اب اس میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے، تاہم اس وقت سکھر بیراج پر پیک موجود ہے اور امید ہے آج وہاں بھی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔

وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اب پانی سکھر سے کوٹھری کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں پر منتخب نمائندے اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی ٹیمیں موجود ہیں تاکہ پانی خیریت سے گزر سکے، پیش گوئی کے مطابق 8 سے 11 لاکھ کیوسک پانی آنے کا خدشہ تھا، اسی حساب سے صوبہ سندھ نے اپنی تیاری مکمل رکھی، اس حوالے سے ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ، ڈیزاسٹر منیجمنٹ، ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، لائف اسٹاک ڈپارٹمنٹ اور مقامی افراد نے بھرپور تعاون اور کردار ادا کیا جس پر ہم سب کے شکر گزار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں سیلاب کا زور ٹوٹنے لگا، سندھ کے بیراجوں پر دباﺅ، کچے کا وسیع علاقہ ڈوب گیا
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے
  • بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
  • کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا تو فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی، وزیراعلیٰ سندھ
  • سیلاب اور بارشوں سے کپاس کی فصل شدید متاثر
  • پنجاب کے دریائوں میں پانی کا بہائو نارمل ہو رہا ہے،ترجمان پی ڈی ایم اے
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • سیلاب
  • سندھ میں سیلاب سے قادرپور فیلڈ کے 10 کنویں متاثر