آسٹریلیوی ’ڈانسنگ اسپائڈرز‘ یعنی ناچنے والی مکڑیوں کی حیرت انگیز اقسام کا راز ان کے پوشیدہ ڈی این اے میں چھپا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دیوسائی میں گلوکارہ قرۃ العین بلوچ پر ریچھ کا حملہ کیوں ہوا، واقعات بڑھنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان مکڑیوں کو ’پیکاک اسپائیڈرز‘ (مور مکڑیاں) بھی کہا جاتا ہے اور ان کی چمکدار رنگت، منفرد حرکات اور نر مکڑیوں کا رقص کناں ہونا انہیں دیگر مکڑیوں سے بالکل مختلف بناتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر پیکاک اسپائیڈرز کی 100 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ زیادہ تر جانوروں کی صرف 5 یا 10 اقسام ہوتی ہیں۔

پوشیدہ ڈی این اے کیا ہے؟

ڈی این اے میں کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو کسی خاص جسمانی خصوصیت (جیسے آنکھوں کا رنگ یا قد) کا تعین کرتے ہیں جنہیں جینز کہا جاتا ہے۔ مگر ڈی این اے کا بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جس کے بارے میں ابھی تک سائنس مکمل طور پر نہیں جانتی کہ وہ کیا کام کرتا ہے اسے ہی ’ڈارک ڈی این اے‘ یعنی پوشیدہ ڈی این اے کہا جاتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہی پوشیدہ ڈی این اے مکڑیوں کو نئی انواع میں ڈھلنے میں مدد دیتا ہے اور انہیں ماحول کے بدلتے حالات کے مطابق تیزی سے ڈھلنے کے قابل بناتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کیا کر رہی ہے؟

سینگر انسٹیٹیوٹ کے محقق جونا واکر نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران آسٹریلیا میں پائی جانے والی تمام مور مکڑیوں کی اقسام کو جمع کیا اور ان کے رقص، رنگ، آواز اور حرکات کو تفصیل سے جانچا۔

بعد ازاں ان تمام مشاہدات کو ڈی این اے کے ساتھ ملا کر تجزیہ کیا گیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سے جین یا ڈی این اے حصے ان مختلف خصوصیات کے ذمہ دار ہیں۔

جونا واکـر نے کہا کہ ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ آخر یہ مکڑیاں اتنی متنوع کیسے بن گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم اس ایک انتہا پسندانہ کیس کو سمجھ لیں تو شاید قدرت میں موجود تمام تنوع کا راز بھی جان سکیں۔

خوف سے محبت تک کا سفر

دلچسپ بات یہ ہے کہ جونا واکر کو شروع میں مکڑیوں سے ڈر لگتا تھا لیکن جیسے ہی انہوں نے پہلی بار ان کا رنگ برنگا رقص دیکھا ان کا خوف ختم ہو گیا اور دلچسپی میں بدل گیا۔

آگے کیا ہوگا؟

تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر سائنس دانوں کو امید ہے کہ جلد ہی وہ یہ جان سکیں گے کہ پیکاک اسپائیڈرز کی اس قدر اقسام کے پیچھے کن جینز اور ڈی این اے کے حصوں کا ہاتھ ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا کے آخری شمالی سفید گینڈے نایجن اور فاتُو کی کہانی

جونا واکر کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر جوانا مئیر کہتی ہیں کہ یہی تحقیق مستقبل میں جانوروں، پودوں اور فنگس سمیت تمام جانداروں کا جینیاتی خاکہ تیار کرنے کے عالمی منصوبے ’ارتھ بایوجینوم پروجیکٹ‘ کی بنیاد بھی بنے گی۔

اب تک 3 ہزار اقسام کا ڈی این اے کامیابی سے ڈی کوڈ کیا جا چکا ہے۔ اگلے سال 10 ہزار اقسام کا ہدف ہے جبکہ اگلے 10 برسوں میں دنیا کی تمام 18 لاکھ اقسام کا جینیاتی کوڈ پڑھنے کا منصوبہ ہے۔

مزید پڑھیں: کیا بار بار اعضا کی پیوندکاری سے انسان امر ہو سکتا ہے؟شی جن پنگ اور پیوٹن کےدرمیان غیر متوقع گفتگو

ڈاکٹر جوانا مئیر نے کہا کہ جب ہم تمام جانداروں کے ڈی این اے کو سمجھیں گے تو یہ نہ صرف قدرت کے کام کرنے کے اصولوں کو ظاہر کرے گا بلکہ ہمیں اپنے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع دے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آسٹریلیا پوشیدہ ڈی این اے ڈارک ڈی این اے مور مکڑیاں ناچنے والی مکڑیاں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا سٹریلیا پوشیدہ ڈی این اے ڈارک ڈی این اے مور مکڑیاں پوشیدہ ڈی این اے اقسام کا

پڑھیں:

چہل قدمی کے شوقین افراد کے لیے خوشخبری، تحقیق میں نیا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی ماہرینِ صحت نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ روزانہ چند ہزار قدم چلنے کی عادت دماغی صحت کے لیے نہایت مفید ہے اور یہ عمل الزائمر جیسے امراض سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

امریکا کے ماس جنرل بریگھم اسپتال میں کی جانے والی اس طویل المدتی تحقیق کے مطابق چہل قدمی کو معمول بنانا عمر کے بڑھنے کے ساتھ دماغی تنزلی کے عمل کو نمایاں طور پر سست کر دیتا ہے۔

تحقیق میں 50 سے 90 سال کی عمر کے 296 افراد کو شامل کیا گیا جو ابتدائی طور پر دماغی امراض سے محفوظ تھے۔ شرکاء کو جسمانی سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ٹریکر پہنائے گئے، جب کہ ان کے دماغی اسکینز کے ذریعے الزائمر سے متعلق نقصان دہ پروٹینز کے اجتماع کا جائزہ لیا گیا۔ یہ مطالعہ تقریباً 10 برس تک جاری رہا۔

نتائج میں انکشاف ہوا کہ جو افراد روزانہ 3 سے 5 ہزار قدم چلنے کے عادی تھے، ان میں دماغی تنزلی کا عمل تقریباً تین سال تک تاخیر کا شکار ہوا۔ جبکہ 5 سے ساڑھے 7 ہزار قدم روزانہ چلنے والوں میں یہ خطرہ سات سال تک کم پایا گیا۔

تحقیق کے مطابق جو افراد زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں، ان کے دماغ میں نقصان دہ پروٹینز کا اجتماع تیزی سے ہوتا ہے، جس سے سوچنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگتی ہے۔ تاہم جن افراد نے بڑھتی عمر میں بھی چہل قدمی جاری رکھی، ان میں دماغی کمزوری کے اثرات سست پڑ گئے۔

محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ طرزِ زندگی میں معمولی تبدیلیاں، جیسے روزانہ چہل قدمی، الزائمر کے ابتدائی اثرات کو کم کر سکتی ہیں۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • رفح میں حماس مجاہدین کی مزاحمت اور کارکردگی پر صہیونی رژیم حیرت زدہ
  • چہل قدمی کے شوقین افراد کے لیے خوشخبری، تحقیق میں نیا حیران کن فائدہ سامنے آگیا
  • سائنسدانوں کی نئی دریافت، مکڑی کی انوکھی نسل منظرعام پر آگئی
  • پانچ نومبر کو عام تعطیل کا اعلان! وجہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے
  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
  • اکشے کو سیٹ پر 100 انڈے کیوں مارے گئے؟ کوریوگرافر کا حیران کن انکشاف
  • پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ، کروڑوں ڈالرز کا منافع
  • قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج
  • قدرت سے ربط رکھنے والے سرفہرست ممالک کون کون سے ہیں؟ فہرست جاری
  • 2 جماعتوں نے بذریعہ سوشل میڈیا نفرت انگیز بیانیہ بنایا: احسن اقبال