ماضی میں پاکستانی فلموں کی نامور اداکارہ خوشبو نے اپنے اور ارباز کے تعلقات پر کھل کے بات کی ہے۔حال ہی میں اداکارہ نے ایک انٹرویو میں سابق شوہر ارباز خان پر دھوکا دہی کا الزام عائد کیا اور علیحدگی کی تصدیق کردی۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ارباز میرے لیے سب کچھ تھے لیکن جب بھی کسی مشکل وقت میں ان کی ضرورت پیش آئی تو وہ میرے ساتھ نہیں تھے جس پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے، میرا اور ارباز کا کوئی جھگڑا نہیں ہوا، وہ بس بغیر بتائے کہیں چلے گئے اور واپس نہیں آئے، انہیں گئے ہوئے 5 برس بیت چکے ہیں لیکن آج بھی وہ میری یادوں میں میرے ساتھ ہیں۔خوشبو نے کہا کہ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ مجھے کئی برسوں سے انہیں (ارباز) دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔اداکارہ کا کہنا تھا کہ اگر میں صرف ایک بیوی ہوتی تو گھریلو خاتون ہوتی اور یہ اللّٰہ جانتا ہے کہ جب تک میں صرف گھریلو خاتون تھی تو میں نے اپنی ذمہ داریاں اور فرائض بخوبی نبھائے، مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں جنہیں میں نبھا رہی ہوں لیکن گزشتہ 6 ماہ سے میں گھر پر تھی لیکن کسی نے مجھے پلٹ کر نہیں پوچھا، کسی نے میری خیریت تک دریافت نہیں کی، گزشتہ 5 برس سے دونوں بیٹے میرے ساتھ ہی ہیں جب کہ ارباز سے ان کی علیحدگی ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ طویل عرصے سے خوشبو اور ارباز کے تعلقات میں کشیدگی اور علیحدگی کی خبریں گردش کر رہی ہیں، اس انٹرویو میں خوشبو نے ارباز خان کے ساتھ خراب تعلقات پر ضرور کھل کر بات کی لیکن انہوں نے طلاق کی واضح تصدیق نہیں کی۔خوشبو خان اور ارباز خان نے 2000 میں شادی کی تھی اور ان کے دو بیٹے ہیں۔اس سے قبل خوشبو خان کے سسر اور پشتو فلم انڈسٹری کے معروف اداکار آصف خان نے بھی شکوہ کیا تھا کہ 5 سال ہوگئے بیٹے بہو سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اور ارباز

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • کیمو تھراپی کے بغیر علاج، مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
  • قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ