عالمی سیاست کی نئی جہت
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ دورہ برطانیہ اور وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ اُن کی تفصیلی ملاقات عالمی سیاست میں ایک اہم پیش رفت کی علامت ہے۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات نہ صرف دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا مظہر ہے بلکہ اس سے یہ پیغام بھی واضح ہوتا ہے کہ موجودہ عالمی بحرانوں کے تناظر میں بڑی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی اور اشتراک عمل ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔
مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال، یوکرین میں جاری جنگ اور عالمی معیشت پر چھائے غیر یقینی کے سائے۔ ایسے میں امریکا اور برطانیہ جیسے اہم عالمی ممالک کا ایک پیج پر آنا اور دفاع، سلامتی، تجارت و ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات پر اتفاق رائے ظاہر کرنا، ایک امید افزا اشارہ ہے۔
برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کی جانب سے امریکا کے ساتھ تعلقات کو ’’ نئی بلندیوں‘‘ تک لے جانے کے عزم نے اس تعلق کو ایک نئی توانائی بخشی ہے۔ وہیں صدر ٹرمپ کی طرف سے برطانیہ کو ’’ قریبی اتحادی‘‘ قرار دینا دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کی ازسر ِنو تصدیق ہے۔ یہ دو طرفہ یقین دہانیاں دراصل اس عالمی منظر نامے میں استحکام کا پیغام ہیں، جہاں طاقت کے توازن میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
ملاقات کے دوران جس طرح مشرق وسطیٰ، یوکرین اور معیشت جیسے حساس موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف باہمی مسائل بلکہ عالمی امور پر بھی مشترکہ موقف اپنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ یہ وہ رخ ہے جس کی آج کی دنیا کو اشد ضرورت ہے۔اگر اس ملاقات کے ممکنہ اثرات کا عالمی تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کے اتحاد کا مضبوط ہونا نیٹو، جی7 اور دیگر عالمی فورمز پر بھی اثر ڈالے گا۔
ایسے میں دیگر اتحادی ممالک بھی اس محور کے گرد متحد ہونے کی کوشش کریں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین اور روس کے ساتھ مغربی طاقتوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ مزید برآں، ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنج پر مل کر کام کرنے کا عندیہ مستقبل کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ دنیا اس وقت کاربن کے اخراج، موسمیاتی بگاڑ اور ماحولیاتی آفات جیسے مسائل سے دوچار ہے، جن کا حل صرف بین الاقوامی تعاون سے ممکن ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کی ملاقات ایک علامتی لمحہ ہی نہیں، بلکہ ایک عملی پیش رفت ہے جو عالمی سطح پر اثر ڈال سکتی ہے۔ اگر یہ عزم و ارادہ صرف بیانات کی حد تک محدود نہ رہے، اور دونوں ممالک مل کر عملی اقدامات کریں تو بلاشبہ یہ دنیا میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے ایک نئی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
ایک نہایت اہم اور حساس سوال یہ ہے کہ جب امریکا اور برطانیہ جیسے طاقتور اور بااثر ممالک عالمی قیادت اور امن کے دعوے دار ہیں، تو پھر یوکرین میں جنگ کیوں نہیں رک سکی؟ اور غزہ میں خونریزی کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی حالیہ مشترکہ پریس کانفرنس میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا، اُن میں عالمی امن، سلامتی، دفاعی اشتراک، ماحولیاتی تبدیلی اور اقتصادی تعاون جیسے موضوعات شامل تھے، مگر یہ سب بیانات بظاہر امید افزا ہونے کے باوجود زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کر پا رہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی حالیہ پریس کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے عالمی امن، سلامتی، تجارتی تعاون اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر مشترکہ عزم کا اظہار کیا۔ انھوں نے یوکرین جنگ، مشرقِ وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال اور عالمی معیشت کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ بظاہر یہ بیانات نہایت حوصلہ افزا تھے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یوکرین میں جنگ بدستور جاری ہے اور غزہ میں انسانی المیہ ہر روز مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
یوکرین کی جنگ اب تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے، ہزاروں جانیں جا چکی ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور مغرب کی طرف سے مسلسل عسکری امداد کے باوجود اس جنگ کا کوئی سیاسی حل سامنے نہیں آ سکا۔ امریکا اور برطانیہ یوکرین کو جنگ جاری رکھنے کے لیے وسائل تو فراہم کر رہے ہیں، لیکن جنگ ختم کرانے کے لیے کوئی سنجیدہ سفارتی کوشش نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوکرین اب ایک پراکسی وار کا میدان بن چکا ہے، جہاں مغرب روس کو کمزور کرنے کا موقع دیکھ رہا ہے۔
اس تناظر میں امن کی باتیں محض اخلاقی دکھاوا بن کر رہ گئی ہیں۔ اسی طرح غزہ کی صورتحال بھی عالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک طرف اسرائیل کے حملے، محاصرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کھلم کھلا جاری ہیں، دوسری طرف امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک صرف ’’ تحمل کی اپیل‘‘ اور ’’ تشویش‘‘ تک محدود ہیں۔ اسرائیل کو عسکری اور سفارتی مدد فراہم کرنے والے یہی ممالک جب غزہ میں جنگ بندی کی بات کرتے ہیں، تو ان کی باتوں میں اخلاص کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کرنا ہو یا انسانی حقوق کی بحالی، ان طاقتوں کی ترجیحات میں یہ مسائل کہیں پیچھے ہیں۔
دوسری جانب چا بہار پورٹ سے متعلق امریکی فیصلے نے نہ صرف بھارت کے علاقائی تجارتی خوابوں کو دھچکہ دیا ہے بلکہ یہ فیصلہ خطے میں طاقت کے توازن پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ امریکا کی جانب سے ایران کو دی گئی پابندیوں کی رعایت واپس لینے کا اقدام بظاہر تو جوہری عدم پھیلاؤ اور ایرانی سرگرمیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے، لیکن اس کے اثرات براہ راست بھارت جیسے ممالک پر بھی پڑیں گے جو ایران کے ساتھ اس بندرگاہ پر سرمایہ کاری کر رہے تھے۔ بھارت نے چا بہار پورٹ میں 10 سالہ معاہدہ کر کے اسے وسطی ایشیا، افغانستان اور روس تک اپنی رسائی کے ایک اہم گیٹ وے کے طور پر دیکھا تھا۔
اس پورٹ کے ذریعے بھارت نے نہ صرف پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کی راہ نکالی بلکہ اسے ’’ ریجنل کنیکٹیویٹی‘‘ کے منصوبے کے طور پر پیش کر کے سفارتی برتری حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔ تاہم امریکا کی جانب سے اس منصوبے پر پابندیوں کی چھوٹ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو اب نہ صرف اپنے معاشی مفادات کو خطرے میں ڈالنا پڑے گا بلکہ اسے اپنی علاقائی حکمت عملی پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔پاکستان کے لیے یہ ایک اہم سفارتی موقع ہے۔ جہاں بھارت کو اقتصادی و سفارتی نقصان کا سامنا ہے، وہیں پاکستان کے لیے گوادر پورٹ کی اہمیت ایک بار پھر اجاگر ہو گئی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت گوادر پورٹ کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ اب مزید مستحکم ہو سکتی ہے،کیونکہ خطے میں متبادل اور محفوظ راستے کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔
چا بہار کی راہ میں رکاوٹ بھارت کے لیے ایک دھچکہ ضرور ہے، لیکن پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی بندرگاہوں، خاص طور پر گوادر کو ایک مستحکم، قابل بھروسہ اور خطے کے لیے اہم تجارتی مرکز کے طور پر منوائے۔یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امریکا کی جانب سے IFCA جیسے قوانین کے تحت ایران کے ساتھ کام کرنے والوں پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی خود امریکا کے عالمی تجارتی و سفارتی کردار پر سوالیہ نشان اٹھا سکتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایسی پالیسیاں اکثر چھوٹے ممالک کے لیے عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضا پیدا کرتی ہیں، جب کہ خطے میں اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔
مجموعی طور پر، بھارت کو اس فیصلے سے شدید نقصان ہو سکتا ہے، خاص طور پر وہ 250 ملین ڈالر کا قرض جو چا بہار منصوبے میں دیا گیا تھا، اب غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف گوادر کی افادیت کو اجاگر کرنا چاہیے بلکہ عالمی سطح پر یہ بھی باور کروانا چاہیے کہ علاقائی ترقی اور استحکام کے لیے ایسی پالیسیاں نقصان دہ ہیں جو کسی ایک ملک کے مفادات کے گرد گھومتی ہوں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کیئر اسٹارمر کی ملاقات بظاہر ایک مثبت علامت ہے، لیکن اگر اس کے نتائج صرف الفاظ اور رسمی بیانات تک محدود رہیں تو یہ ایک اور کھوکھلا سفارتی مظاہرہ بن جائے گا۔ دنیا اب صرف دعوے نہیں، عملی اقدامات چاہتی ہے۔ امن، انصاف اور انسانیت کو اگر واقعی عالمی ایجنڈے کا مرکز بنانا ہے، تو ان طاقتوں کو سب سے پہلے اپنے رویے بدلنے ہوں گے، ورنہ تاریخ انھیں بھی اسی صف میں رکھے گی جہاں بے حس تماشائیوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔دنیا آج جس نازک دور سے گزر رہی ہے، اس میں ایسے اتحادوں کی قیادت کو صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے مثال بنانا ہوگی۔ اب وقت ہے کہ امریکا اور برطانیہ اس ملاقات کو نقطہ آغاز بنا کر عالمی سطح پر ایک مؤثر اور تعمیری کردار ادا کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اور برطانیہ ماحولیاتی تبدیلی برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اسٹارمر کی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹرمپ اور یہ ہے کہ چا بہار سکتا ہے کے ساتھ کے لیے پر بھی
پڑھیں:
کالا باغ ڈیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ڈیم اور بیراج بننے چاہئیں، سعد رفیق
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ڈیم اور بیراج بننے چاہئیں۔
مظفر گڑھ میں میڈیا سے گفتگو میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ دورے کا مقصد سیاسی لوگوں کو فیلڈ میں نکالنا ہے، جماعتوں سے بالاتر ہوکر سیاسی لوگوں کو متاثرین کی مدد کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو پیسے نہیں ملتے، شوگر ملز مالکان مافیا بن گئے ہیں، گنے کے کاشتکاروں کے 2 سال سے رکے واجبات دلوائے جائیں۔
ن لیگی رہنما نے مزید کہا کہ سیلاب سے فصلوں، فش فارمز اور باغات کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے، ہر سیاستدان کی ذمے داری ہے کہ آفت میں لوگوں کے کام آئیں۔
سعد رفیق نے یہ بھی کہا کہ دریا کے بیٹ میں تعمیرات کرنے والوں کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے، میرا خیال ہے اب حکومت کسی سے رعایت نہیں کرے گی۔