Express News:
2025-09-20@00:23:41 GMT

ایک اور ہجرت پر موت کو ترجیح

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم کو پورے مقبوضہ مغربی کنارے سے الگ کر کے شمالاً جنوباً دو حصوں میں تقسیم کرنے کے حتمی منصوبے ایسٹ ون ( ای ون ) کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا خواب محض ایک سراب ہے۔یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ای ون منصوبے کے تحت بارہ مربع کیلو میٹر رقبے میں قائم مالے ادومیم نامی آبادکار بستی میں مزید ساڑھے تین ہزار گھر تعمیر کیے جائیں گے۔

یروشلم سے اس بستی تک جو سڑک تعمیر ہو گی وہ رملہ اور بیت الحم کے درمیان سے گذرے گی۔ چنانچہ ایک دوسرے سے بائیس کیلومیٹر دوری پر واقع دونوں شہروں کا نہ صرف باہمی تعلق بلکہ یروشلم سے براہِ راست مواصلاتی رابطہ بھی ختم ہو جائے گا۔یعنی کسی بھی فلسطینی کو بھی ان شہروں سے یروشلم آنے کے لیے طویل راستہ کاٹ کے درجنوں فوجی چیک پوسٹوں پر پوچھ گچھ اور تلاشی کی اضافی ذلت سے گذرنا ہو گا۔

 منصوبے کا بنیادی مقصد جیسا کہ نیتن یاہو نے واضح کیا ، ایک خودمختار قابلِ عمل فلسطینی ریاست کو درکار علاقہ چھین کر آزادی کے امکان کو اور گہرا دفن کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل ، یورپی یونین اور برطانیہ ، آسٹریلیا اور جاپان سمیت اکیس ممالک نے اس توسیعی منصوبے کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔مگر اسرائیل ہر طرح کی مذمتوں اور مطالبات کا ہمیشہ سے عادی ہے۔

تازہ منصوبے میں تیزی لانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کئی اسرائیلی اتحادی ممالک نے دھمکی دی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رواں سالانہ اجلاس کے دوران فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیں گے۔چند ماہ پہلے اسپین ، آئرلینڈ اور ناروے کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو مکمل سفارتی درجہ دینے کے ردِ عمل میں اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموترخ نے خبردار کیا تھا کہ آیندہ جو ملک فلسطینی ریاست تسلیم کرے گا اس کے بدلے ایک نئی آبادکار بستی بطور ’’انعام ‘‘ تعمیر کی جائے گی۔

ای ون منصوبے کی ڈرائنگ سمجھاتے ہوئے وزیرِ خزانہ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر فرمایا کہ مغربی کنارے پر ہر نئی بستی ، ہر نیا گھر فلسطینی ریاست کے خطرناک خیال کے تابوت میں ایک اور کیل ثابت ہوں گے۔

درحقیقت ای ون تعمیراتی منصوبہ اکتیس برس پرانا ہے اور انیس سو ترانوے کے اوسلو امن سجھوتے کے تحت دو ریاستی حل کا تحریری وعدہ کرنے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک رابین نے ہی سب سے پہلے انیس سو چورانوے میں اس بارے میں بات چھیڑی تھی۔ منصوبہ دو ہزار چار میں ایک پولیس اسٹیشن اور ذیلی سڑکوں کی تعمیر سے شروع ہوا۔تاہم یورپی ممالک نے تب بھی بظاہر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسے دو ریاستی حل کی سرخ لکیر قرار دیا تو عارضی طور پر کام روک دیا گیا۔

مگر اکتوبر دو ہزار تئیس میں حماس کی مسلح کارروائی کے سبب گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور مغربی پشت پناہوں نے اسرائیل کو حقِ دفاع کے نام پر ہر نام نہاد سرخ لکیر عبور کرنے کی اجازت دے دی۔ٹرمپ کی جانب سے جب یہ سگنل ملا کہ اسرائیل اپنے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے میں حقِ بجانب ہے تو گویا نسل کشی اور قبضہ گیری کے گھوڑے کو ایڑ لگ گئی۔

مالے ادومیم کی بستی کو یروشلم سے ملانے والی شاہراہ ہر بڑی یہودی آبادی کو چھوتی ہوئی گذرے گی۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے تمام اہم قصبے ان بستیوں کے درمیان تنہا جزیروں کی طرح زندہ رہیں گے کیونکہ ایک یہودی بستی سے دوسری بستی کو جو سڑک جوڑتی ہے اس پر سیکیورٹی کے نام پر فلسطینیوں کو بلا پرمٹ سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ای ون آبادکاری منصوبے کی توسیع کے لیے جو علاقہ مختص کیا گیا ہے اس میں اٹھارہ فلسطینی بدو برادریاں رہتی ہے اور ان کی زندگی کا دار و مدار زراعت اور مویشیوں پر ہے۔بدو کمیونٹی کی زیادہ تر آبادی مغربی کنارے پر خان الحمر کے میدانوں میں ہے جو یروشلم اور یہودی بستی مالے ادومیم کے درمیان پڑتے ہیں۔ شمالاً جنوباً شاہراہ بننے کا مطلب یہاں سے بدو آبادی کی بے دخلی ہے۔

ان برادریوں نے اب تک جبری بے دخلی کی مزاحمت کی ہے اور اسرائیلی عدالت سے ماضیِ قریب میں حکم ِ امتناعی بھی حاصل کیا ہے۔مگر بدلی فضا میں شاید عدالت بھی اب مدد نہ کر سکے۔یوں صدیوں پرانی فلسطینی تہذیب کی ایک اور تہہ ختم ہو جائے گی۔ انسانی حقوق کے ایک سرگرم یہودی کارکن ایلون کوہن کے بقول ای ون منصوبے کے کوئی سیاسی یا معاشی فوائد نہیں ہیں۔ اصل مقصد فلسطینیوں کو باقی ماندہ زمین چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔

یہاں کئی بدو برادریاں وہ بھی ہیں جنھیں اسرائیل کے قیام کے بعد جنوبی اسرائیل میں صحراِ نجف کا آبائی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور وہ اپنا اسباب لے کر مغربی کنارے پر منتقل ہو گئیں جو انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلی قبضے سے پہلے اردن کے زیرِ انتظام تھا۔

اب یہ برادریاں دوسری بار چراگاہوں اور زمینوں سے بے دخل ہوں گی تو ان کی منزل گنے چنے گنجان فلسطینی شہر ہی ہوں گے۔

اقوامِ متحدہ کے رابطہ مرکز برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ جنوری دو ہزار چوبیس سے اس سال اکتیس جولائی تک مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور ان کی املاک پر مسلح آبادکاروں نے لگ بھگ ڈھائی ہزار حملے کیے۔سب سے زیادہ حملے رملہ ( پانچ سو پچاسی ) اور نابلس ( چار سو اسی ) میں ہوئے ہیں۔اس عرصے میں فوج اور آبادکاروں نے مل کر ایک سو تیس بچوں سمیت پونے سات سو فلسطینیوں کو شہید کیا ۔زیتون کے ہزاروں درخت اکھاڑے گئے یا جلا دیے گئے۔

فلسطینی آبادی کو بھوک سے مارنے کے لیے غزہ میں تو ناکہ بند نسل کشی کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ مغربی کنارے پر یہی کام کھیتوں کی ضبطی ، فصلیں بلڈوز کرنے یا جلانے ، آبی چشموں پر قبضے اور نقل و حرکت کو اجازت ناموں کا قیدی بنا کر کیا جا رہا ہے۔تاہم  فلسطینی گزشتہ ہجرتوں کے برعکس اس بار ایک نئی بے دخلی کا عذاب سہنے کے بجائے اپنی ہی زمین پر موت ، قید اور املاک کی تباہی برداشت کر رہے ہیں۔ ایک آخری امید کی ڈھال ان کا واحد سہارا ہے ۔یہ آخری امید کیا ہے شاید فلسطینی بھی نہیں جانتے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کو فنِ تعمیر کے عالمی میدان میں ایک اور اہم اعزاز حاصل

دنیا پاکستان کی تخلیقی سوچ، جدید تعمیرات اور پائیدار ترقی کی معترف ہونے لگی، پاکستان نے فنِ تعمیر کے عالمی میدان میں ایک اور اہم اعزاز حاصل کر لیا۔وژن پاکستان منصوبے نے آغا خان ایوارڈ فار آرکیٹیکچر 2025 اپنے نام کر لیا۔آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے جاری اعلامیہ کے مطابق فنِ تعمیر کے 7عالمی فاتحین میں شامل ’’وژن پاکستان‘‘ منصوبے کو ڈی پی اسٹوڈیوز نے ڈیزائن کیا۔ ’’وژن پاکستان‘‘ ایک فلاحی مرکز ہے جو کم مراعات یافتہ نوجوانوں کو جدید فنی تربیت فراہم کرتا ہے۔آغا خان ایوارڈ فار آرکیٹیکچر 2025 کی تقریب کرغزستان میں منعقد ہوئی۔ کامیاب منصوبوں میں سیلاب سے محفوظ رہنے والے مکانات، ثقافتی ورثہ کی بحالی کی کوششیں اور صنعتی فضلاء کے دوبارہ استعمال کے منصوبے شامل ہیں۔شہزادہ رحیم آغا خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج کی آب و ہوا میں معماروں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی صلاحیتوں سے کمزور لوگوں کو موسمی حالات سے محفوظ رکھیں۔وژن پاکستان منصوبے کے آرکیٹکٹ محمد سیف اللہ صدیقی نے کہا کہ ’’یہ ایوارڈ صرف ایک اعزاز نہیں بلکہ ہمارے فنِ تعمیر کی ترقی کی اہمیت کی یاد دہانی ہے۔وژن پاکستان کا عالمی سطح پر یہ اعزاز پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بی آرٹی ریڈ لائن منصوبے پر کام مکمل طور پر روک دیا گیا
  • عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہے‘عبدالسمیع
  • مغربی کنارے میں اردنی ٹرک ڈرائیور کی فائرنگ، دو اسرائیلی ہلاک
  • غزہ میں سڑک کنارے بم دھماکا:افسرسمیت 4 اسرائیلی فوجی ہلاک
  • موٹروے توڑنا آسان فیصلہ نہیں، ہر قیمت پر جلال پور پیر والا کو بچانا ترجیح ہے: عبدالعلیم خان
  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
  • پاکستان کو فنِ تعمیر کے عالمی میدان میں ایک اور اہم اعزاز حاصل
  • لاڑکانہ: دریائے سندھ کے کنارے ناظم کلہوڑو گاؤں کے کچے کے علاقے میں سیلاب متاثرین نے عارضی جھونپڑیاں قائم کر لی ہیں
  • سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی اولین ترجیح ہے: گورنر پنجاب