Jasarat News:
2025-09-20@01:20:05 GMT

آبِ حیات

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-5

 

 

ایڈووکیٹ مدثر اقبال

 

 

’’اہداف طے کرنا وہ پہلا قدم ہے جو ناممکن کو ممکن میں بدل دیتا ہے‘‘۔ ٹونی رابنز انسانی زندگی میں مقصد نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مقصد کے بغیر گویا زندگی ایک ایسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی مانند ہو جس کی کوئی منزل ہی نہ ہو۔ جہاں انسانی زندگی کوششوں اور کاوشوں کے جیسے حسین امتزاج سے مزین ہوتی ہے وہیں توکل خلوص نیت اور منزل کا ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ آپ کے پاس توکل کوشش اور خلوص نیت جیسے اوصاف تو موجود ہیں لیکن آپ کے ذہن میں منزل کا خاکہ نہیں ہے تو آپ کی کوششیں رائیگاں اور بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اگر فرض کریں کہ منزل کا تصور تو موجود ہے مگر آپ اس تصور سے انحراف کرتے اورآپ ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں تو یقینا آپ اپنی منزل سے دور ہو جائیں گے آپ اپنے مقصد کو چھوڑ دیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ایک سائیکل ریس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس ریس میں مشرق کی جانب ایک منزل مقرر کر دی جاتی ہے تمام سائیکل سوار ایک ہی سمت میں اپنی تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہیں اور پہیے کی گردش کو اپنی طاقت سے تیز سے تیز تر کرنے کی جستجو میں مگن ہیں۔ چند کلومیٹر کے بعد جس شاہراہ پہ آپ چل رہے ہوتے ہیں اسی شاہراہ سے آپ کو چکمہ دینے کے لیے دوسری سمت ایک جاذب نظر، خوشنما اور مسحور کن رستہ مغرب کی جانب نکال دیا جاتا ہے۔ ریس کے کچھ شرکاء اس مغربی رستے کی رعنایوں اور جاذبیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا رخ اس جانب گامزن کر دیتے ہیں تو وہ ناکام ہو جائیں گے وہ اپنی منزل سے بھٹک جائیں گے۔ ان کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

آپ کا مقصد جو آپ کی منزل کا تعین کرتا ہے جو آپ کا خواب ہے آپ کے منتشر ذہن اور خیالات سے وہ ادھورا رہ جائے گا۔ اگرآپ کا مقصد عظیم ہے اعلیٰ و ارفع ہے آپ کے دل کی تسکین کا باعث ہے تو اپنے مقصد کو معمولی رعنایوں کے لیے قربان مت کریں۔ ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کی شائع شدہ ریسرچ کے مطابق دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے ہر شخص کوشش کرتا ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن چند ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی گود میں کامیابی آگرتی ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق اگر آپ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل کی جستجو میں ہیں اور آپ کچھ خاص حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ کے ذہن میں اپنے خواب اپنی منزل اپنی جستجو کا ایک خاکہ ایک واضح تصور ہونا چاہے۔ آپ کا ایک مستقل مقصد ہونا چاہے۔ کیونکہ یہ آپ کا مقصد ہی ہوتا ہے جس کے لیے آپ کوشش کرتے ہیں۔

کہاوت ہے اپنے ذہن میں عظیم سے عظیم مقصد، خواب یا منزل کی پرورش کرو کیونکہ آپ کی کوشش بھی آپ کے ذہن میں موجود آپ کے خواب کے مطابق ہی ہو گی۔ جب آپ کے ذہن میں ایک واضح مقصد موجود ہو تو آپ اپنے ذہن کو منتشر نہ ہونے دیں بلکہ مستقل مزاجی، مسلسل محنت اور مرکوز توجہ کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پورے اعتماد اور تسلسل سے اپنے خواب کو پورا کرنے کی کوشش میں مگن رہیں۔ مائیکرو مینجمنٹ کے تحت معمولی معمولی اقدامات کے ذریعے اپنی منزل کی جانب گامزن رہیں۔ اپنی کوششوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں اور تقسیم شدہ حصوں کے مطابق انہیں مکمل کریں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ فرض کریں آپ کرمنالوجی میں کے امتحان میں نمایاں پوزیشن پہ براجمان ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو مستقل مزاجی سے اپنی لگن اور کوشش سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہونا پڑے گا۔ آپ روزانہ اگر دن اور رات کو دو دو گھنٹے کرمنالوجی کے موضوع پہ ورق گردانی کرتے ہیں تو ایک ماہ میں آپ 120 گھنٹے اپنی منزل اپنے مقصد کی خاطر قربان کرتے ہیں۔ یہی چھوٹے چھوٹے اقدامات ایک دن آپ کو اپنی منزل پہ پہنچا دیں گے۔ لیکن اگر آپ یا تو محنت ہی نہیں کرتے یا آپ یہ تہیہ کرتے ہیں کہ میں امتحانات کے دنوں میں پڑھ لوں گا اور اپنے مقصد سے انحراف کرتے ہیں تو پر کامیابی کا حصول ناممکن تو نہیں کٹھن ضرور ہو جائے گا۔ جب آپ کے ذہن میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے تو یہ آپ کی زندگی کو ایک نئی جہت اور تحریک دیتا ہے یہ آپ کے شعور اور لاشعور میں براجمان ہو جاتا اور پھر یہ آپ کو اس کے حصول کے لیے اس کی جستجو کے لیے کوششوں کی طرف مائل کر دیتا ہے۔

ڈومینیکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تقریباً 70 فی صد لوگ جنہوں نے اپنے مقاصد دوستوں یا خاندان کے ساتھ شیئر کیے، وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس، صرف 35 فی صد لوگ جنہوں نے اپنے مقاصد کو بنا تحریر اپنے تک محدود رکھا، کامیابی حاصل کر سکے۔ منتشر اور الجھے ہوئے ذہن کبھی اپنی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگ کبھی کامیابی کے رستے پہ گامزن نہیں ہو سکتے جو اپنے مقصد اور منزل کے حصول کی خاطر آدھا سفر طے کرنے کے بعد واپس ہو کر کسی نئی منزل کا انتخاب کر بیٹھیں اور پھر الجھاؤ اور تناؤ کا شکار ہو جائیں۔ جب آپ اپنے مقاصد اپنی جستجو یا خواب کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو یقینا آپ پھر اپنے آپ کو اس کواب کے بارے میں جواب دہ بھی تصور کرتے ہیں آپ کے قریبی آپ کی منزل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا من پسند شخص اپنی منزل کی جانب گامزن ہے اور وہ اسے حاصل کر کے ہی رہے گا۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں آپ کو حوصلہ دیتے ہیں اور آپ کی کامیابی پہ تالیاں بھی بجاتے ہیں۔

ریلائی ایبل پلانٹ کی ریسرچ کے مطابق 92 فی صد لوگ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر پاتے یہ ریسرچ اس بات کو یوں بیان کرتی ہے کہ لوگ اکثر ناکام اس لیے ہوتے ہیں کہ ان میں عزم کی کمی ہوتی ہے، وہ بہت آسان مقاصد طے کر لیتے ہیں، عمل نہیں کرتے، اور کامیابی یا ناکامی کے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ یا پھر منتشر ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلائی ایبل پلانٹ کی ایک تحقیق کے مطابق بہت سے لوگ ایک نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں جسے ’’تجزیاتی مفلوجیت‘‘ (Analysis Paralysis) کہا جاتا ہے۔ یعنی، وہ شکوک و شبہات کی وجہ سے رْک جاتے ہیں اور آگے بڑھنا نہیں چاہتے جب تک کہ ہر ’’اگر ایسا ہو جائے تو؟‘‘ والے سوال کا جواب نہ مل جائے۔ نتائج کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے اپنے اہداف سے آغاز کریں۔

اس ریسرچ کے مطابق محض آٹھ فی صد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد اپنی منزل کو تعین کر کے اس کو حاصل کر لیتے ہیں آخر ایسی کون سی خوبیاں یا صلاحیتیں ہیں جو یہ ممکن بنا دیتی ہیں کیا ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں کیا یہ لوگ حد سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں کیا یہ عام انسان نہیں ہوتے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے یہ عام انسان کی طرح ہی ہوتے ہیں یہ بھی نارمل انسانوں کی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ان میں مستقل مزاجی، مسلسل محنت و لگن اور اپنے مقاصد اپنے خوابوں سے محبت جیسے اوصاف شامل ہوتے ہیں جیسا کہ ان لوگوں کا ایک مخصوص ہدف، مقصد اور خواب ہوتا ہے جو بہت آسان تو نہیں لیکن قابل حاصل ضرور ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے پرجوش ہوتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں اور مستقل مزاج رہتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی ہوتی ہے حاصل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے وہ منتشر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے مقاصد شیئر کرتے ہیں اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ جو انہیں حوصلہ دیتے ہیں ایک امنگ پیدا کرتے ہیں ان میں۔

وہ ایک وقت میں ایک ہی قدم اٹھاتے ہیں اور اسی پہ اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اپنی منزل اپنے خواب کی جانب وگرنہ وہ منزل کو کھو دیتے ہیں۔ اسی طرح کی تحقیق یونیورسٹی آف اسکرینٹن، امریکا نے بھی شائع کی جس کے مطابق آٹھ فی صد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد اپنی منزل کو تعین کر کے اس کو حاصل کر لیتے ہیں۔ ’’آپ اپنے اہداف حاصل کر کے جو چیز پاتے ہیں، وہ اتنی اہم نہیں جتنے اہم وہ شخص ہیں جو آپ ان اہداف کو حاصل کر کے بنتے ہیں‘‘۔  زگ زگلر۔ ہمارے مقاصد ہمارے خواب اور ہمارا مشن آب حیات کی طرح انتہائی قیمتی ہوتے ہیں۔ انہیں پہچانیں ان کے لیے مستقل مزاجی، محنت اور لگن سے انہیں حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں۔ تاکہ دنیا آپ کے لیے آپ کی کامیابیوں پہ تالیاں بجائے نا کہ محض آپ اس دنیا میں ایک تماش بین کی طر ح صرف دوسروں کے لیے تالیاں بجاتے رہیں۔

منزلوں کی جستجو گر تھکا دے تجھے

راستوں کی دشواریاں ہلا دیں تجھے

وقت کی گردشیں اگر بجھا دیں تجھے

تو تلاش کر وہ سائے جو جِلا دیں تجھے

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریسرچ کے مطابق ا پ کے ذہن میں رہے ہوتے ہیں اپنے مقاصد جانب گامزن کرتے ہیں ا اپنے خواب اپنے مقصد اپنی منزل ہیں اور ا کی جستجو دیتے ہیں لیتے ہیں ا پ اپنے منزل کو منزل کی کو حاصل میں ایک نہیں کر کی جانب کرنے کی منزل کا ہوتا ہے کی کوشش کا شکار ہیں تو اپنے ا ہیں کہ کے لیے ہیں جو

پڑھیں:

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ 

آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔

یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔ 

پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔ 

یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ 

اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔

میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ 

چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔ 

اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔ 

پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔ 

بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔

ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔

یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔ 

مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔

مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ 

اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ 

وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔ 

اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔ 

اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔ 

یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔ 

انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔

آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔ 

ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔ 

بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔

آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی اداکارائیں جو بولڈ لباس پہننے سے نہیں گھبراتیں
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کا مقصد فلسطینیوں کی جبری مہاجرت ہے، اردن
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا