UrduPoint:
2025-09-20@10:52:22 GMT

بھارت: کشمیری دستکاروں پر ٹرمپ ٹیرفس کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

بھارت: کشمیری دستکاروں پر ٹرمپ ٹیرفس کے اثرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہوال میں ایک پرانے کچی اینٹوں سے بنے مکان کی تین منزلہ ورکشاپ میں 65 سالہ اختر میر پپیئر ماشی کے ہنرمند دستکاروں کی ایک ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔

ورکشاپ میں رنگوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ مزدور فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں، ان کے ہاتھ رنگوں سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ گلدانوں، ہاتھیوں اور آرائشی ڈبوں کو پھولوں اور پرندوں کے رنگین نقش و نگار سے سجا رہے ہیں۔

میر کا خاندان تین نسلوں سے یہ فن سکھا رہا ہے اور اس کا جذبہ نئی نسلوں تک منتقل کر رہا ہے۔ آج یہ ورکشاپ صرف میر کے خاندان کی وراثت نہیں ہے بلکہ درجنوں مقامی ہنرمندوں کے گھروں کا سہارا بھی ہے۔

میر اور ان کی ٹیم امریکہ اور یورپ کے لیے ہر سال کرسمس کے خصوصی پپیئر ماشی کے فن پارے تیار کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے بھارت پر نئی محصولاتی شرحیں عائد کر دینے کے بعد تہوار کا یہ موسم اب مختلف ہو سکتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ان نئی شرحوں سے پریشان ہیں۔ ہمیں ابھی تک کرسمس کے آرڈر موصول نہیں ہوئے۔ اگر ہمیں آرڈر نہ ملے تو میرے کاریگروں کا روزگار متاثر ہو گا‘‘

ٹرمپ کی محصولاتی پالیسی ہی ان کا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ کشمیری دستکاری کے بڑے خریدار وہ سیاح بھی ہوتے ہیں جو اس جنت ارضی کی سیاحت کے لیے آتے ہیں، لیکن اپریل میں پہلگام حملے کے بعد اس سال سیاحوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

’یہ کام اب ہمیں خوشی نہیں دیتا‘

یہاں تک کہ کشمیری قالین بُننے والے بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ امریکہ کے امیر خریداروں سے ان کا تعلق کہیں ختم نہ ہو جائے۔

شمالی کشمیر کے کنزر گاؤں کے قالین بُننے والے عبدالمجید کا کہنا تھا،''یہ کام اب ہمیں خوشی نہیں دیتا، اب تناؤ اور بے یقینی کی صورت حال ہے۔‘‘

کئی برسوں سے امریکہ کی طرف سے کپڑوں، قالینوں اور دستکاری کے سامان کی مانگ نے کشمیر کی دست کاری صنعت کو سہارا دیا ہے۔

لیکن روسی تیل پر واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تنازعے کی وجہ سے امریکہ نے بھارت کی مختلف مصنوعات پر 50 فیصد تک کے محصولات عائد کر دیے ہیں۔

غیر ملکی خریدار پہلے ہی کشمیری دستکاری کی مصنوعات کے لیے زیادہ قیمتیں ادا کر رہے تھے، کیونکہ ان کے بنانے میں محنت اور فنکاری درکار ہے۔ لیکن نئی محصولاتی پالیسی کے تحت قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مانگ میں کمی متوقع ہے، جس سے ہزاروں ہنرمندوں کی روزی خطرے میں ہے۔

دستکاری مصنوعات کے لیے اٹلی ممکنہ حریف

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے امریکی محصولات کو دستکاری کے شعبے کے لیے ''تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔

کے سی سی آئی کے سربراہ جاوید احمد ٹینگا نے کہا، ''ہمیں یقین ہے کہ حکومت اس معاملے پر کام کر رہی ہے اور برآمد کنندگان کے لیے کچھ ترغیبات دے سکتی ہے تاکہ کاروبار میں کچھ استحکام آئے۔

‘‘

کشمیر کے ہینڈی کرافٹس اور ہینڈلوم کے محکمے کے ایک سینیئر عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی صارفین کشمیر کے بجائے اٹلی سے خریداری کر سکتے ہیں جہاں امریکی محصولات کی حد 15 فیصد ہے۔

عہدیدار نے کہا، ''اس کا مطلب ہے کہ کشمیر کی دستکاریاں مارکیٹ سے باہر ہو جائیں گی۔ بہت سے امریکی صارفین نے اپنے آرڈر روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں اپنے ہنرمندوں اور کھڈیوں کو مصروف رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔

نتیجتاً بے روزگاری کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔‘‘

ریاستی حکومت کے ساتھ تقریباً 4 لاکھ ہنرمند رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے کام میں رکاوٹ مہارت کے بڑے زیاں کا باعث بن سکتی ہے۔

عہدیدار نے کہا، ''جب ایک ہنرمند کسی اور پیشے میں منتقل ہوتا ہے تو ہم نہ صرف موجودہ افرادی قوت کھو دیتے ہیں بلکہ مستقبل میں اعلیٰ معیار کی مصنوعات بنانے کی صلاحیت بھی۔

‘‘ لگژری سامان امریکی خریداروں کی پہنچ سے باہر

بھارت اور امریکہ کے درمیان موجودہ تنازعے سے پہلے برآمدی سامان پر 8 سے 12 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد تھی، اور امریکی خریدار سالانہ تقریباً 1.

2 ارب ڈالر خرچ کر کے بھارت کی 60 فیصد دستکاریاں خریدتے تھے۔

کشمیری دستکاری مصنوعات برآمد کرنے والے مجتبیٰ قادری نے کہا کہ ٹرمپ کی محصولات نے اس شعبے کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

قادری نے کہا کہ لگژری اشیاء بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں کیونکہ خریدار خریداری مؤخر یا منسوخ کر دیتے ہیں۔

قادری، جو می اینڈ کے نامی کشمیری شال اور برآمدی کمپنی چلاتے ہیں، نے کہا، ''جب محصولات 50 فیصد بڑھ جاتے ہیں تو کشمیر سے امریکہ برآمد ہونے والی ہر چیز، شال، قالین، پپیئر ماشے، لگژری اور غیر ضروری اشیاء کے زمرے میں آ جاتی ہے۔

‘‘

قادری کا کہنا تھا، ''می اینڈ کے جیسی کمپنی، جو اپنی 80 فیصد برآمدات امریکہ بھیجتی ہے، کو نمایاں نقصان ہو گا۔ مثال کے طور پر، ایک شال جو پہلے 300 ڈالر میں فروخت ہوتی تھی اب 450 ڈالر کی ہوگی، جو بڑا اضافہ ہے۔ نتیجتاً زیادہ تر لوگ اپنے آرڈر منسوخ کر دیں گے۔‘‘

بے یقینی کی فضا

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نئی محصولات برآمدات کو نصف تک کم کر سکتی ہیں اور پورے بھارت میں 5 سے 7 لاکھ دستکاری ملازمتوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

سرینگر کے مضافات، زونیمار میں شال بُننے والی 39 سالہ افروزہ جان پہلے ہی دباؤ محسوس کر رہی ہیں۔

افروزہ، جو اپنے گھر کی کھڈی پر دن بھر کام کرتی ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ سخت محنت اور جانفشانی کا کام ہے، میری آنکھیں دکھتی ہیں اور کمر درد کرتی ہے۔ لیکن یہ ہمارا واحد ذریعہ معاش ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''ہمارے ڈیلر نے یہ کہہ کر کچھ آرڈر منسوخ کر دیے ہیں، کہ مارکیٹ میں بے یقینی ہے۔

‘‘

ان کے شوہر اور نند بھی لگژری شالیں بُنتے ہیں، جنہیں بنانے میں مہینوں سے سالوں لگتے ہیں، اور بڑے آرڈروں کے لیے ان کے خاندان کے دس یا اس سے زیادہ افراد کو کام میں شامل کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا، ''اگر ہم نے کام کھو دیا تو اس کا اثر پورے خاندان پر پڑے گا۔‘‘

سمرینہ سید، سرینگر

ج ا ⁄ ص ا

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی محصولات کشمیر کے کے لیے نے کہا میر کے رہا ہے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ طالبان سے بگرام ائیر بیس واپس کیوں لینا چاہتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے بگرام ایئر بیس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش کا اعادہ کر کے بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی توجہ ایک مرتبہ پھر جنگ سے تباہ حال افغانستان پر مرکوز کر دی ہے۔ ٹرمپ، جو اس سے قبل پاناما کینال سے لے کر گرین لینڈ تک مختلف خطوں اور مقامات کو امریکی قبضے میں لینے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں،بگرام پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

فروری میں دوسری مدت کے لیے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی انہوں نے بگرام ائیر بیس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔ وہ اس معاملے پر اپنے پیشرو جو بائیڈن کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں کہ ان کی وجہ سے افغانستان سے اجلت میں کیے گئے انخلا نے خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا۔

(جاری ہے)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کہ ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے دورہ برطانیہ کے موقع پر پہلی بار بگرام کی واپسی پر زور دیا ہو، تو پھر انہوں نے ایسا کیا کہا، جس کے سبب اس مرتبہ ان کے بیان پر زیادہ ردعمل سامنے آیا اور تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ٹرمپ نے کیا کہا؟

ٹرمپ نے جمعرات کو لندن کے دورے کے دوران برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا، ''ہم وہ بیس واپس چاہتے ہیں۔

‘‘ چین کی وجہ سے اپنے اس اقدام کی اسٹریٹجک اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا، ''یہ (بگرام ائیر بیس) اس جگہ سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے، جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔‘‘

امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ طالبان کی کسی نہ کسی رضامندی کے ساتھ یہ بیس حاصل کر سکتا ہے تاہم اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ معاہدہ کس شکل میں ہوگا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے اس بارے میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے دعوے اور چین کے براہ راست ذکر نے اس بار ان کے بگرام سے متعلق بیان پر سنجیدہ ردعمل اور بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے۔

طالبان کا رد عمل

تاہم کابل نے اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے اہلکار ذاکر جلال نے ایک بیان میں کہا، ''افغانستان اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے چاہئیں، لیکن امریکہ کی کسی بھی حصے میں فوجی موجودگی کے بغیر۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر طالبان امریکی صدر کی اس تجویز کو مان لیتے ہیں تو یہ اس قدامت پسند افغان گروہ کے لیے ایک غیرمعمولی یوٹرن ہوگا، جس نے امریکی افواج کو نکال باہر کرنے اور امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت سے ملک واپس لینے کے لیے برسوں جنگ لڑی۔

تاہم افغان بزنس کونسل یو اے ای کے صدر حاجی عبیداللہ صدر خیل کے مطابق طالبان کی جانب سے بگرام ائیر بیس کی امریکہ حوالگی کو قطعی طور پر خارج از امکان بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے صدر خیل نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ٹرمپ نے ابھی تک ثابت کیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک بزنس مین اور ڈیل میکر ہیں، تو بگرام ائیر بیس کو بھی ایک بزنس ڈیل کی طرح دیکھیں، وہ (ٹرمپ) جانتے ہیں کہ طالبان اپنے زیر کنٹرول افغانستان میں اقتصادی بہتری کے لیے شدت سے کسی اچھی بزنس ڈیل کے منتظر ہیں اور اس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا؟‘‘

بگرام ائیر بیس ایک نظر میں

بگرام ایئر بیس سابق سوویت یونین نے تعمیر کی تھی اور 2001ء میں نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے دوران یہ امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بن گیا۔

یہ اڈہ کابل کے شمال میں واقع ہے اور اس میں 11,800 فٹ طویل رن وے موجود ہے، جس پر بمبار طیارے اور بڑے کارگو جہاز اتر سکتے ہیں۔ یہ اڈہ افغانستان میں امریکی فوجی آپریشنز کا اعصابی مرکز تھا، جہاں ہزاروں فوجی تعینات رہے۔

یہاں کبھی امریکی فوجیوں کے لیے برگر کنگ اور پیزا ہٹ جیسے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس کے علاوہ الیکٹرانکس سے لے کر افغانی قالینوں تک سب کچھ فروخت کرنے والی دکانیں بھی موجود تھیں۔

اس کے علاوہ یہاں ایک بدنام زمانہ جیل بھی قائم تھی، جس طالبان میں جنگجوؤںسمیت القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروہوں سے وابستہ درجنوں قیدی رکھے گئے۔

2021 میں امریکی انخلا کے دوران بگرام کو اچانک اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے چھوڑ دیا گیا، جس کے بعد طالبان نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعے کو افغانستان میں امریکہ کے سب سے ناکام فیصلوں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔

چین اور روس کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب امریکی محکمہ دفاع اور اب ٹرمپ انتظامیہ کے ماتحت محمکہ جنگ کہلانے والا پینٹاگون 2021 میں امریکہ کے افغانستان سے افراتفری پر مبنی انخلا کا جائزہ لے رہا ہے، جسے ٹرمپ انتظامیہ میں بہت سے پالیسی ساز امریکہ کے بڑے چیلنجز، خصوصاً چین کے ساتھ مقابلے سے توجہ ہٹانے کا سبب سمجھتے ہیں۔

اسی سبب چین نے بھی امریکی صدر کے اس بیان پر ردعمل میں کہا کہ بیجنگ افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور تمام فریقوں سے خطے میں امن و استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کی اپیل کرتا ہے۔

چینی وزاور خارجہ کے ترجمان لن جیان نے جمعے کے روز بریفنگ میں کہا، ''افغانستان کے مستقبل اور تقدیر کا فیصلہ افغان عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔

خطے میں کشیدگی کو ہوا دینا یا محاذ آرائی پیدا کرنا عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے پاکستان کونسل آن چائنہ کے ایگریکٹو ڈائریکٹر اور علاقائی امور کے ماہر ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے بیان کو ''عسکری قوت: مصالحت نہیں مخاصمت‘‘ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' دنیا میں سپر پاورز اپنے اثرو رسوخ کا غلبہ قائم رکھنےکے لیے ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہی ہیں اور ہم اب بھی یہی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

رواں ماہ کے آوائل میں دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے اسی سال مکمل ہونے پر بیجنگ میں منعقدہ پریڈ کا حولا دیتے ہوئے ڈاکٹر فضل الرحماٰن نے کہا کہ چین نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ فوجی سازو سامان کے اعتبار سے کس مقام پر کھڑا ہے اور یہ بات یقیناﹰ امریکہ سمیت دیگر ممالک کے لیے باعث تشویش ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''اسٹریٹجک اثرو رسوخ، نایاب معدنیات کے حصول کے لیے دوڑ یہ تمام وہ عوامل ہیں، جو امریکی صدر کی خطے میں دلچسپی کا باعث ہیں۔‘‘

تاہم ان کے بقول امریکی صدر کا یہ بیان صرف بیجنگ نہیں بلکہ ماسکو کے لیے بھی اہم ہے۔ افغانستان کے ہمسائے ہونے اور اس وقت یوکرین کے ساتھ جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے روس بھی ٹرمپ کے اس بیان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا، ''ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روس نے حال ہی میں افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔‘‘

اس لیے روس کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ امریکہ کو افغانستان میں اسٹریٹجک اہمیت کا ایک اڈہ مہیا کیا جائے۔

حاجی عبیداللہ صدر خیل کا کہنا ہے کہ سفارتی سطح پر تسلیم کیے جانا طالبان کے لیے اہم ضرور ہے لیکن وہ اس سے اپنے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔

انہوں نے کہا، ''اگر طالبان اور امریکہ کے مابین کوئی ڈیل طے پا جاتی ہے تو یہ نہ صرف طالبان کو معاشی طور پر بہت فائدہ دے سکتی ہے بلکہ ان کی عالمی سطح پر قبولیت میں بھی اہم کر دار دار کرے گی۔‘‘ بگرام کا دوبارہ حصول، امریکہ کے لیے 'بڑا چیلنج‘

تو موجودہ صورتحال میں امریکہ کے لیے بگرام ائیر بیس کا دوبارہ حصول اور پھر اسے فعال رکھنا کتنا بڑا چیلنج ہو گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ اس حوالے سے باتے کرتے ہوئے امریکی فوج کے ایک سابق اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ بیس دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک بڑا چیلنج ہوگی۔

اس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دسیوں ہزار فوجیوں، بھاری اخراجات سے بیس کی بحالی اور رسد کی فراہمی کے لیے مشکل لاجسٹک انتظامات کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ ایک زمینی طور پر بند ملک میں امریکی افواج کے ایک تنہا اڈے کے طور پر کام کرے گا۔

اہلکار نے مزید کہا کہ بیس پر قبضے کے بعد بھی اس کے وسیع و عریض علاقے کو محفوظ بنانا اور راکٹ حملوں سے بچانے کے لیے کلیئر کرنا ایک بڑی مہم ہوگی، ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ حقیقت میں کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے ایئر بیس کو شروع میں محفوظ بنانا مشکل ہوگا اور اس کے آپریشن اور حفاظت کے لیے بھاری تعداد میں فوجیوں کی ضرورت ہوگی۔

یہاں تک کہ اگر طالبان مذاکرات کے بعد امریکہ کے بگرام پر دوبارہ قبضے کو قبول بھی کر لیں، تب بھی اسے افغانستان میں موجود داعش اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں سمیت مختلف خطرات سے بچانا پڑے گا۔

یہاں پر قائم کیا گیا، اڈہ ایران کے میزائل حملوں کے لیے بھی کمزور نشانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تہران جون میں اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کے جواب میں قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنا چکا ہے۔ امریکہ کہ ایک اور سابق دفاعی اہلکار نے بیس دوبارہ حاصل کرنے کے فوائد کو کم اہم قرار دیا، جن میں وہ نکتہ بھی شامل تھا جس پر ٹرمپ زور دیتے ہیں کہ یہ چین کے قریب ہے۔ اس اہلکار کا کہنا تھا، ''مجھے نہیں لگتا کہ وہاں کوئی خاص فوجی فائدہ ہے۔ خطرات فوائد پر غالب ہیں۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • بگرام ائیر بیس بارے ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا ردعمل
  • کشمیری نوجوان استعماری ذہنیت ترک کرکے مادری زبان اپنائیں، منوج سنہا
  • صدر ٹرمپ طالبان سے بگرام ائیر بیس واپس کیوں لینا چاہتے ہیں؟
  • ٹک ٹاک نے مجھے صدر بننے میں مدد دی، ٹرمپ کا اعتراف
  • ’’ٹک ٹاک نے مجھے صدر بننے میں مدد دی‘‘، ٹرمپ کا اعتراف
  • پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ، بھارت ،اسرائیل پریشان، خطے میں نئی ہلچل
  • حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز ہے، بھارتی وزارت خارجہ
  • کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے